جھوٹ سچ ساتھ ساتھ
پاکستان خطے میں زرعی اجناس چینی‘ گندم‘ پام آئل‘ دالیں‘ پھل اور سبزیاں ایکسپورٹ کرتا تھا۔ لیکن آج ان اشیاء کو امپورٹ کر رہا ہے۔ امپورٹ کی گئی گاڑیوں پر نجی بنکوں کی رعایتی فنانس ختم کردی گئی ہے۔ جی ڈی پی میں ٹیکس کی شرح 10 سے گیارہ فیصد ہے۔ 22 کروڑ کی آبادی میں صرف 62 لاکھ افراد کی سالانہ آمدنی چار لاکھ روپے سے زائد ہے۔ یکم نومبر سے گھریلو صارفین کیلئے گیس کے نرخوں میں 35 فیصد تک اضافہ کرنے کی تجویز ہے۔ ملک میں وسیع پیمانے پر بجلی اور گیس کی چوری ہوتی ہے۔ بجلی اور گیس کی قیمتیں بڑھانے کی بجائے انکی چوری کا سدباب کیوں نہیں کیا جاتا۔ یوٹیلٹی سٹورز پر قیمتیں مہینے میں چوتھی بار بڑھا دی گئیں۔ سفید چنا کی قیمت 120 سے بڑھا کر160 روپے فی کلو کر دی گئی۔ مارکیٹ اور پرائس کنٹرول کمیٹیاں محض نام کی رہ گئی ہیں۔ پرائس مجسٹریٹ سسٹم دوبارہ لانے پر حکومت غور کر رہی ہے۔
احساس پروگرام کے ذریعے لوگوں کو آٹا چینی دالوں اور گھی کیلئے پیسے دیئے جائیں گے۔ گھی پر نافذ ٹیکسوں میں کمی کی گئی ہے جس سے اسکی پرچون قیمت میں پچاس روپے کلو کمی آئیگی۔ احساس پروگرام کے تحت ایک کروڑ پچیس لاکھ افراد کو نقد امداد دی جائیگی۔ بلدیاتی ادارے مہنگائی کے باب میں انتہائی غیرفعال ہیں۔ کسی گلی محلے کا صاف ستھرا ہونا محض خواب ہے۔ ہر شہر کے مسائل روز بروز بڑھتے اور سنگین تر ہوتے چلے آرہے ہیں۔ صبح ہوتی ہے وارڈن موٹر سائیکل سواروں کو گھیر کر چالات کی کتابیں بھرنا شروع ہو جاتے ہیں۔ انہیں ٹریفک قوانین پر عملدرآمد سے کوئی مطلب نہیں۔ کاش حکمرانوں کی یقین دہانیاںعملی حقیقت میں ڈھل سکیں۔ لوگوں کو پتا نہیں ڈپٹی کمشنر میٹروپولیٹن کارپوریشن اور بلدیاتی اداروں کے کیا فرائض ہیں۔ اسی طرح تعلیم میں ڈائریکٹر سکولز کالجز‘ ڈی پی آئی سکولز کالجز‘ ایجوکیشن اتھارٹی کے فرائض کیا ہیں کیا محض فضول خرچی ہے‘ عہدے اور سہولتیں ہیں‘ تمام سرکاری سکول اور کالجز اپنی آمدنی اور خرچ کو سامنے رکھ کر بجٹ بنائیں‘ خسارہ پورا کرنے کیلئے فیسوں میں اضافہ کریں اور حکومت سے امداد لیں۔ حکومت سوچے کہ پرائیویٹ تعلیمی ادارے کیسے پھل پھول رہے ہیں۔ گروپ آف کالجز کی طرف نظر دوڑائیں عوام انکی طرف دوڑ رہے ہیں۔ میٹرک کا نتیجہ آنیوالا ہے۔ پرائیویٹ گروپوں نے پہلے سے ہی مفت ایئرکنڈیشنڈ کلاسیں لگا کر بچوں کو اپنی طرف مائل کرلیا ہے۔ سرکاری کالجوں میں دوسرے تیسرے درجے کے طالب علم رہ جائیں گے۔ کالجوں کی سیکنڈ شفٹیں رعایتی 33 نمبر لے کر پاس ہونیوالے عملاً نالائق ترین لڑکے لڑکیاں سرکاری کالجوں کی دوسری شفٹ کا مقدر بنیں گی۔ میڈیکل کالجوں اور انجینئرنگ یونیورسٹی میں داخلے کیلئے انٹری ٹیسٹ میں کامیاب ہونیوالے پرائیویٹ کالجوں سے ہی تعلق رکھتے ہیں۔ سرکاری کالجوں نے کبھی اس چیلنج پر غور کیا؟ پرائیویٹ اور سرکاری تعلیم کے موازنے کیلئے ایک موازنہ کمیشن قائم ہو جو دونوں سیکٹروں کے خدوخال سامنے لائے۔ 33 نمبر دیکر نالائقوں کو میٹرک ایف اے کی سند تھمانا کونسا کارنامہ ہے۔
آئی ایم ایف کا نیا مطالبہ ہے کہ پاکستان آٹا‘ چینی‘ گھی سمیت پانچ اشیاء پر سبسڈی ختم کرے۔ یہی اشیاء تو عوام کی بنیادی ضرورت ہیں۔ دودھ‘ گوشت‘ سبزیوں اور ایندھن کی قیمتیں بھی تو غریبوں کا سر چکرائے ہوئے ہیں۔ کاش! آئی ایم ایف کے لوگ پاکستان کے عوام ہوتے اور انکی طرح قطاروں میں کھڑے ہو کر سستے آٹا تھیلا کی خریداری کا انتظار کرتے۔ پاکستان کے بیرونی قرضوں و واجبات میں 26 ہزار ارب اضافہ ہوا ہے۔ درآمدات برآمدات سے تین گنا زیادہ ہیں۔ بیرونی قرضوں کا حجم 122 ارب 44 کروڑ ڈالر ہے۔ سرکاری ملازمتوں میں اقلیتوں کی 30 ہزار اسامیاں خالی ہیں۔ ایک کروڑ نوکریوں کے انتظار میں تین سال بیت گئے‘ جیسے رشتوں کے انتظار میں بچیوں کی عمر بیت جاتی ہے۔ ملک میں مجموعی بے روزگار افراد کی شرح 16 فیصد‘ پڑھے لکھے افراد کی بے روز گاری کی شرح 24 فیصد اور پڑھی لکھی خواتین میں بے روزگاری کی شرح چالیس فیصد تک پہنچ گئی ہے۔ روزگار کیلئے کوئی طویل المدتی منصوبہ بندی نہیں۔ 2023ء کے الیکشن میں نوکریوں کی فراہمی کا ہی سبزباغ دکھایا گیا تھا۔ انتخابی جلسوں میں یہ تک کہا گیا تھا کہ بیرون ملک سے لوگ روزگار کیلئے پاکستان آیا کریں گے۔ فی الحال تو ای وی ایم ووٹنگ مشین ایک متنازع مسئلہ ہے۔ اس سے قبل پارٹی فنڈنگ کیس بھی سپرد خاک کر دیا گیا۔ الیکشن جیتنے کیلئے حکمران جماعت سارے پاپڑ بیلتی ہے۔ انتخابات سے پہلے نگران حکومت بھی کاغذی حکومت ہوتی ہے۔ ووٹنگ مشین کا خرچہ دو سو ارب روپے سے کم نہیں ہوگا۔ مشین چلانے والے کہاں سے آئیں گے۔ پاکستان میں حکومتوں اور حکومتی ارکان پرکرپشن کے الزامات اور مقدمات کوئی نئی بات نہیں۔ ملک میں کرپشن کم یا زیادہ ہر سطح پر ہوتی ہے۔ سلام کے قابل ہے وہ سرکاری ملازم جو بااختیار ہو کر بھی رزق حلال پر تکیہ کئے ہوئے ہے۔