• news

فوجی قیادت کیساتھ مجھ سے بہتر کسی کے تعلقات نہیں : عمران

اسلام آباد (خبرنگار خصوصی، نامہ نگار) وزیراعظم عمران خان کی زیرصدارت پاکستان تحریک انصاف کی پارلیمانی پارٹی کا اجلاس پارلیمنٹ ہائوس میں ہوا۔ اجلاس کے بعد میڈیا کو بریفنگ دیتے ہوئے وفاقی وزیر اطلاعات فواد چودھری نے کہا کہ  پارلیمانی پارٹی کے اجلاس میں ہمارا فوکس افغانستان پر تھا۔ وزیراعظم نے پارلیمانی پارٹی کے ممبران کو افغانستان کی صورتحال پر اعتماد میں لیا۔ پاکستان کا موقف ہے کہ اس وقت ہمیں افغانستان کو تنہا نہیں چھوڑنا چاہئے۔ اگر افغانستان کو تنہا چھوڑا گیا اور وہاں عدم استحکام پیدا ہوا تو افغانستان میں دہشت گرد اور انتہاپسند گروپ اپنی جگہ بنا سکتے ہیں۔ افغانستان میں عدم استحکام کی صورتحال افغانستان کے ساتھ ساتھ دنیا اور پاکستان کے لئے بھی نقصان کا باعث بنے گی۔ وزیر اطلاعات نے کہا کہ ڈی جی آئی ایس آئی کی تقرری کے معاملہ پر بھی وزیراعظم نے پارلیمانی پارٹی کو اعتماد میں لیا اور بھرپور طریقے سے یہ بات کہی کہ فوج اور حکومت ایک پیج پر ہیں۔ چیف آف آرمی سٹاف جنرل قمر جاوید باجوہ کے ساتھ وزیراعظم کے بہت خوشگوار اور قریبی تعلقات ہیں۔ حکومت تمام نکات نظر پر عسکری قیادت کے ساتھ مل بیٹھ کر بات کرتی ہے۔ ڈی جی آئی ایس آئی کی تقرری کے حوالے سے معاملے پر بھی صورتحال یہی رہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان کی تاریخ میں کبھی سول و عسکری قیادت کے اتنے اچھے تعلقات نہیں رہے جتنے آج ہیں اور اس کا تمام کریڈٹ چیف آف آرمی سٹاف جنرل قمر جاوید باجوہ کو جاتا ہے جنہوں نے ہمیشہ پاکستان میں جمہوریت اور سول حکومت کو ادارہ جاتی سپورٹ دی۔ پاکستان کے عوام کو فوج کی عزت اور وقار عزیز ہے۔ وزیراعظم نے پارلیمانی کمیٹی کو بتایا ہے کہ ڈائریکٹر جنرل انٹر سروسز انٹیلی جنس کی تقرری سے متعلق معاملات مکمل طور پر طے پا چکے ہیں۔ ڈی جی آئی ایس آئی کی تقرری کا پراسیس شروع ہو چکا ہے اور ان کی تقرری کا نوٹیفکیشن جلد جاری ہو جائے گا۔ اس تقرری پر سول اور ملٹری قیادت دونوں اطراف آن بورڈ ہیں اور باہمی اعتماد کی فضا میں یہ فیصلہ ہوگا۔ چوہدری فواد حسین نے کہا کہ ملک میں مہنگائی کی بنیادی وجہ عالمی سطح پر اشیاء کی قیمتوں میں اضافہ ہے۔ حکومت نے مہنگائی سے نمٹنے کے لئے نئی اکنامک پالیسی تشکیل دی ہے، جس کے تحت نومبر کے مہینے سے حکومت تین بڑے پروگرام شروع کر رہی ہے جن میں صحت کارڈ، کسان کارڈ اور احساس کارڈ شامل ہیں۔ پنجاب کے ہر شہری کو صحت کارڈ دیا جائے گا۔  پنجاب حکومت مزدور کارڈ جاری کر رہی ہے۔ وفاقی وزیر اطلاعات نے بتایا کہ12 ربیع الاول کو دو بڑی تقریبات ہوں گی، ایک تقریب ایوان صدر اور دوسری کنونشن سنٹر میں ہوگی جس میں وزیراعظم بڑے مذہبی اجتماع سے خطاب کریں گے۔ علاوہ ازیں  وزیراعظم عمران خان نے کہا ہے کہ حکومت ملک میں سرمایہ کاری اور برآمدات کے فروغ کیلئے اقدامات کر رہی ہے۔ انہوں نے ان خیالات کا اظہار مشیرِ تجارت و سرمایہ کاری عبدالرزاق دائود اور خواجہ جلال الدین رومی سے گفتگو کرتے ہوئے کیا جنہوں نے جمعرات کو یہاں ان سے ملاقات کی۔ دریں اثناء  وزیراعظم عمران خان نے صوبوں اور آزاد کشمیر کی حکومت کو ہدایت کی ہے کہ وہ سرسبز اور زرعی اراضی کے استعمال میں تبدیلی کو روکنے کے لئے قانون سازی میں تیزی لائیں۔ وزیراعظم عمران خان کی زیر صدارت جمعرات کو ہائوسنگ، تعمیرات اور ترقی پر قومی رابطہ کمیٹی کا اجلاس منعقد ہوا جس میں موجودہ اور نئے منصوبوں پر پیشرفت کا جائزہ لیا گیا۔ مزید برآں وزیراعظم عمران خان نے کہا ہے کہ ہماری حکومت درختوں کے تحفظ کے لئے پرعزم ہے۔ جمعرات کو ٹوئٹر پر ایک شاہراہ کے کنارے لگائے گئے درخت کو جدید مشینری سے دوسری جگہ منتقل کرنے کی ویڈیو شیئر کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ہر درخت کو محفوظ بنایا جارہا ہے۔ وزیراعظم عمران خان سے رکن قومی اسمبلی احسان اللہ ٹوانہ نے بھی یہاں ملاقات کی اور اپنے حلقے کے امور اور جاری ترقیاتی منصوبوں پر تبادلہ خیال کیا۔ معاون خصوصی برائے سیاسی امور ملک عامر ڈوگر بھی موجود تھے۔ وزیر داخلہ شیخ رشید نے کہا ہے کہ نئی تعیناتی کے لیے وزیراعظم نے انٹرویو کی کوئی بات نہیں کی۔ پارلیمانی پارٹی اجلاس کے بعد شیخ رشید نے صحافیوں کو بتایا کہ وزیراعظم سیاسی طور پر سوچ رہے تھے، فوج کا اپنا طریقہ کار ہے۔ باہمی طور پر سب چیزیں طے کر لی گئی ہیں۔ وزیراعظم نے کہا ہماری اور فوج کی بہت اچھی انڈر سٹیڈنگ ہے۔ صحافی کے ایک سوال پر انہوں نے کہا کہ حکومت اور فوج میں کسی قسم کی غلط فہمی نہیں، فضول سوال مت کریں۔ پارلیمانی پارٹی اجلاس کے بعد  وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے پارلیمنٹ ہاؤس میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہو ئے کہا کہ اجلاس میں افغانستان کی صورتحال اور ہمسایہ ہونے کے ناطے انسانی ہمدردی کے تحت اٹھائے گئے اقدامات، بین الاقوامی روابط کے حوالے سے پارلیمانی پارٹی کو اعتماد میں لیا۔ ہم چاہتے ہیں کہ وہ امن مخالف قوتیں جو افغانستان کی مخدوش صورتحال سے فائدہ اٹھانا چاہتی ہیں انہیں موقع نہ مل سکے۔ وزیر خارجہ نے کہا کہ مہنگائی  سے نمٹنے کیلئے آنے والے دنوں میں اہم قانون سازی سامنے آ سکتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ جہاں تک اپوزیشن کا تعلق ہے تو ان کے لیے یہی کہوں گا کہ ہزاروں خواہشیں ایسی کہ ہر خواہش پہ دم نکلے، اپوزیشن کی  یہ خواہشات کبھی پوری نہیں ہوں گی۔
اسلام آباد (رپورٹ: عبدالستار چودھری) وزیراعظم عمران خان کی زیرصدارت پارلیمانی پارٹی کا اجلاس کی اندرونی کہانی سامنے آ گئی ہے۔ جس کے مطابق وزیراعظم عمران خان نے موجودہ صورتحال پر پارلیمانی پارٹی کو اعتماد میں لیتے ہوئے بتایا ہے کہ ڈی جی آئی ایس آئی کی تقرری کے معاملے پر حکومت اور عسکری قیادت کے مابین کوئی کشیدگی نہیں۔ یہ ایک پروسیجرل معاملہ تھا۔ جس پر قیاس آرائیاں زیادہ ہو گئیں۔ ذرائع کے مطابق وزیراعظم عمران خان نے کہا کہ میرے اور فوجی قیادت کے درمیان جو تعلقات ہیں، اس سے بہتر کسی کے تعلقات نہیں ہو سکتے۔ ڈی جی آئی ایس آئی کی تقرری میں تکنیکی خامی تھی جو دور ہوگئی ہے اور اب یہ معاملہ جلد حل ہو جائے گا۔ ڈی جی آئی ایس آئی کی تعیناتی کے حوالے سے کوئی ابہام نہیں۔ ذرائع کے مطابق وزیراعظم عمران خان نے پارلیمانی پارٹی کو بتایا کہ حکومت چاہتی تھی کہ افغانستان کی تیزی سے تبدیل ہوتی ہوئی صورتحال کے تناظر میں موجودہ ڈی جی آئی ایس آئی لیفٹیننٹ جنرل فیض حمید اس عہدے پر کچھ عرصہ مزید کام جاری رکھتے اور صورتحال کے معمول پر آتے ہی کور کمانڈ کرنے کے لئے فرائض سنبھال لیتے۔ تاہم ایسا ممکن نہ ہو سکا۔ وزیراعظم نے ارکان پارلیمنٹ کو کہا کہ ہمیں اپنے منشور پر عملدرآمد کرنے پر توجہ دینی ہے۔ ذرائع کے مطابق پارلیمانی پارٹی کے اجلاس میں افغانستان کے معاملے پر بھی گفتگو ہوئی اور رکن قومی اسمبلی شیرعلی ارباب نے اعلی سطح کا ایک پارلیمانی وفد افغانستان بھیجنے کا مطالبہ کیا جس کے جواب میں وزیراعظم عمران خان نے کہا کہ حکومت کی پہلی کوشش ہے کہ افغانستان میں انسانی بحران پیدا نہ ہو۔ افغانستان میں استحکام ہوگا تو پاکستان میں بھی امن ہوگا۔ ذرائع کے مطابق اجلاس میں ہندو ارکان اسمبلی نے مذہب کی جبری تبدیلی سے متعلق بل مسترد ہونے کا شکوہ بھی کیا۔ لال چند ملحی نے کہا کہ مذہب کی جبری تبدیلی کو روکنے کے لیے قانون سازی کی اشد ضرورت ہے۔ جس پر وزیراعظم عمران خان نے کہا کہ ہماری حکومت نے اقلیتوں کے حقوق کے لئے سب سے زیادہ اقدامات کیے ہیں۔ مذہب کی جبری تبدیلی کے خلاف بل میں کچھ مسائل ہیں جس کی وجہ سے یہ بل منظور نہیں کیا جا سکا۔ اقلیتوں کے حقوق کا تحفظ کریں گے۔ میں خود یہ سارا معاملہ دیکھ رہا ہوں۔

ای پیپر-دی نیشن