چینی کی مہنگے داموں امپورٹ ، وزیر اعظم انکوائری کرائیں
تجزیہ: محمد اکرم چوہدری
ملک میں آئندہ کچھ روز میں گنے کا کرشنگ سیزن شروع ہونے والا ہے لیکن اس کے تینوں سٹیک ہولڈرز ایک پیج پر نہیں ہیں جس سے مجھے خدشہ ہے کہ ان کے آپس کے جھگڑے کی قیمت گزشتہ سال کی طرح عوام کو مہنگی چینی خرید کر ادا کرنی پڑے گی۔ مجھے افسوس صرف اس بات کا ہے کہ گنا ہماری اپنی فصل ہے۔ وافر مقدار میں پیدا ہونے کے باوجود عوام کو چینی مہنگے داموں ملتی ہے۔ شوگر مل مالکان کا موقف ہے کہ گزشتہ سال حکومت نے ایک من گنے کی قیمت 200روپے مقرر کی۔ شروع میں تو گنا اسی قیمت پر ملا لیکن بعد میں ایک من گنے کی قیمت 375روپے بھی ادا کی گئی۔ کسان تنظیموں کا موقف ہے کہ ان سے گنا اوسط قیمت 250روپے میں خریدا گیا صرف چند کسانوں سے انکا گنا مہنگے داموں خریدا گیا اور شوگر مل مالکان نے اس کو بنیاد بنا کر واویلامچایا کہ ایک من گنا 375روپے تک خریدا ہے اس لئے اس کی پیداواری قیمت 104روپے بنتی ہے۔ پنجاب حکومت نے ایک کلو چینی کی ایکس مل قیمت 84.75 روپے اور پرچون قیمت 89.75مقرر کی لیکن اس کا کہیں بھی اطلاق نہیں ہو سکا۔ اس کا نتیجہ یہ ہے کہ صارفین اس وقت ایک کلو لوکل چینی110روپے سے 115روپے تک خرید رہے ہیں۔ قصہ یہا ں ختم نہیں ہوا حکومت نے عوام کو سستی چینی دینے کے لئے 1.5لاکھ ٹن چینی امپورٹ کی جس پر سارے ٹیکس ختم کئے گئے اس کے باوجود یہ چینی 125روپے سے 130روپے فی کلو میں پڑی۔ اس کی درآمد پر 20کروڑ ڈالر کا خطیر زرمبادلہ خرچ ہوا۔ میںابھی تک حیران ہوں کہ اس معاملے پر کھپ کیوں نہیں پڑی۔ حکومت نے پہلے ملکی شوگرمل مالکان سے مذاکرات کئے انہوں نے پہلے 104روپے فی کلو قیمت طلب کی پھر 100روپے کلو تک آفر کی لیکن کمشن مافیا وزیر اعظم عمران خان کی حکومت کی آنکھوں میں دھول جھونکنے میں کامیاب رہا اور 628ڈالر فی ٹن کے حساب سے چینی امپورٹ کرانے میں کامیاب رہا۔ حکومت نے امپوٹڈ چینی نہ صرف مہنگے داموں امپورٹ کی بلکہ ایک کلو چینی پر 24روپے کی سبسڈی بھی دی۔ میری وزیر اعظم عمران خان سے پرزور اپیل ہے کہ کم از کم اس معاملے کی انکوائری تو کرائیں۔ امپورٹڈ چینی کے بارے میں یہ آوازیں بھی اٹھ رہی ہیں کہ یہ بھارتی چینی ہے جسے یو اے ای کے ذریعے امپورٹ کیا گیا ہے۔ یہ مضر صحت چینی ہے اس میں سلفر کی مقدار زیادہ ہے۔گزشتہ سال گنے کے کسانوں کو انکی فصل کی اچھی قیمت مل گئی تھی۔ مقررہ قیمت 200روپے تھی لیکن کسان تنظیموں کے مطابق اوسط قیمت 250روپے رہی۔ اسی وجہ سے اس سال ایک محتاط اندازہ کے مطابق گزشتہ سال کے مقابلے میں گنے کے زیر کاشت رقبے میں 18فیصد اضافہ ہوا ہے۔ اس حوالے سے کسان تنظیموں کی جانب سے تحفظات کا اظہار شروع ہو گیا ہے کہ اس سال ملی بھگت سے گنے کے کسانوں کو اچھا ریٹ نہیں ملے گا۔کسان بورڈ پاکستان کے صدر چوہدری شوکت علی چدھڑ نے لاہور میں مجلس عاملہ کی ہنگامی اجلاس میں خطاب کرتے کہا ہے کہ حکومت بند کمرے میں خوشامدی کسانوں کو بلا کر شوگر مل مافیا کے حق میں کسان دشمن فیصلے کرنے جا رہی ہے۔ حکومت اور مل مافیا کی سازش کے خلاف کسان بورڈ پاکستان آج (16کتوبر کو ) ایوان زراعت کے باہر لاہور میں احتجاجی مظاہرہ کریں گے۔ یکم نومبر کو ملیں نہ چلائی گئیں اور گنے کا ریٹ تین سو روپے فی من نہ کیا گیا تو ملک بھر میں احتجاج کی کال دیں گے۔ انہوں نے کہا کہ سولہ اکتوبر کو لاہور میں شوگر کین کنٹرول بورڈ کی میٹنگ بلائی گئی ہے جس میں حکومت نے کسانوں کے غیر نمائندہ اور خوشامدی کسانوں کو بلا کر گنے کے کاشتکاروں کے مفادات کے خلاف فیصلے کرنے کا خفیہ پروگرام تشکیل دیا ہے جبکہ حسب سابق اس میں کسان بورڈ پاکستان سمیت دیگر حقیقی کسان تنظیموں کے نمائندوں کو یکسر نظر انداز کیا گیا ہے۔ انہوں نے مطالبہ کیا کہ اس نام نہاد شوگر کنٹرول بورڈ کی میٹنگ کو فوری طور پر ملتوی کیا جائے اور کسانوں کی حقیقی نمائندہ تنظیموں کے نمائندوں کو اس بورڈ میں شامل کیا جائے۔ ملک میں ابھی گنے کی فصل کے حتمی اعدادوشمار نہیں آئے ابھی تک گنے کی خریداری کا سرکاری ریٹ مقرر نہیں ہوا صرف ایک اندازہ ہے کہ اس سال کھیتوں میں کھڑی گنے کی فصل کی مالیت 500ارب روپے ہے لیکن حکومتی افراد نے کہنا شروع کر دیا ہے کہ چینی کی پیداواری قیمت 72روپے اور اس کی پرچون قیمت 80روپے ہو گی حکومتی افراد کو محتاط رویہ اپنانا چاہئے کل کو کچھ بھی ہو سکتا ہے اگر گنے کی سرکاری قیمت 200روپے من برقرار رکھی جاتی ہے تو اس صورت میں چینی کی قیمت بھی کم ہو گی لیکن شوگرمل مالکان حکومتی افراد کے بیانات کا حوالہ دے کر قیمتوں کا پھڈا کھڑا کر سکتے ہیں۔ کرشنگ سیزن کے آغاز سے چند روز قبل پنجاب حکومت نے شوگر ملز کے مالکان اور سینئر مینجمنٹ کو کسانوں کے واجبات کی عدم ادائیگی کے الزام میں گرفتار کیا ہے۔میری اطلاعات کے مطابق پانچ ڈیفالٹر شوگر ملوں کے خلاف کریک ڈاؤن شروع کرتے ہوئے تاندلی والا شوگر ملز(دونوں یونٹس) ، چنار شوگر ملز ، پسرور شوگر ملز ، شکر گنج شوگر ملز کے خلاف صوبائی حکومت نے مقدمات درج کیے اور شوگر مل مالکان اور سینئر مینجمنٹ کو گرفتار کیا۔ اہم الزامات میں گنے کی ادائیگیوں پر کسانوں کے ایک ارب روپے سے زائد کے واجبات کا نادہندگی کے علاوہ اضافی نرخوں پر چینی بیچنا وغیرہ شامل ہیں۔اس واقعے کے بعد پاکستان شوگر ملز ایسوسی ایشن کے چیرمین چوہدری ذکا اشرف نے گزشتہ روز اپنی پریس کانفرنس میں بات کو لپیٹتے ہوئے کہا کہ گنے کے کاشتکاروں کے چند لاکھ روپے کی عدم ادائیگی پر شوگرملز ایسوسی ایشن کے سینئر ممبر ز کو بغیر نوٹس دئیے گرفتار کرنے کی وہ شدید مذمت کرتے ہیں جس کے بعد انہوں نے کہا کہ ممبرز کے غیر معمولی اجلاس عام میں فیصلہ کیا گیا ہے کہ آج شوگر کین کمشنر پنجاب کے اجلاس کا بائیکاٹ کریں گے اصل بات تو یہ ہے کہ شوگر ملیں ایک ارب روپے کی ڈیفالٹر تھیں کچھ لاکھ روپے کی نہیں لیکن ان کی بات مان بھی لوں توشوگر ملز ایسوسی ایشن کے پلیٹ فارم سے ڈیفاٹر شوگر مل مالکان کی حمایت کرنا میرے نزدیک ایک غلط امر ہے اس کی ان کو حوصلہ شکنی کرنی چاہیئے تھی۔میری حکومت ،شوگر مل مالکان اور کسانوں سے صرف یہی گزارش ہے کہ وہ مل بیٹھ کر آپس کے اختلافات ختم کریں ایک پیج پر آئیں اور منافع ضرور کمائیں لیکن عوام کا بھی خیال رکھیں ان کو بھی مہنگائی سے بیل آوٹ کریں۔