شاد عارفی: کھرا انسان اور سچا شاعر
شاد عارفی ایک حساس، راست گو، مفلوک الحال، بیمار، مظلوم اور باکمال شاعر تھا۔ اس نے زندگی بھر منافقت، جھوٹ، جبر، تشدد اور استحصال کے خلاف جہاد کیا اور اس سلسلے میں کسی فرد سے ڈرا نہ حکومت وقت سے۔ اس رویے کی قیمت دینی پڑتی ہے اور اس نے قیمت دی مگر افراد اور حکومت سے کبھی سمجھوتہ نہیں کیا ۔ ہندوستان کی مختلف حکومتوں کا وہ نقاد تھا۔ اس بنا پر رامپور سے ملنے والی ایک معمولی پنشن کو بھی بند کروا دیا گیا۔ اس کے باوجود 1971ء میں جبل پور (مدھیہ پردیش) کے ہندو مسلم فسادات کے خلاف ایک دلیرانہ نظم لکھی ’ابھی جبل پور جل رہا ہے‘۔ اس کے علاوہ بھی حکومت ہند اور اس کے لیڈر اس کے نشانے پر رہے۔ اسے ڈرایا گیا، جیل بھی ڈالنے کا خوف دلایا گیا جس کا جواب اس نے یہ دیا کہ میں پہلے ہی چٹنی سے روٹی کھا رہا ہوں۔ جیل میں مجھے دال روٹی ملے گی اس لیے میں جیل سے خوف زدہ نہیں ہوں۔
میں تو چٹنی سے کھا رہا ہوں شاد
دال ملتی ہے جیل خانے میں
اس کا ایک شعر کبھی بہت مشہور ہوا تھا:
ہمارے ہاں کی سیاست کا حال مت پوچھو
گھری ہوئی ہے طوائف تماش بینوں میں
یہ شورش کاشمیری کا پسندیدہ شعر تھا۔ آخر کار ایک آدھ لفظ کی تبدیلی کے ساتھ کاانھی سے منسوب ہوگیا۔احمد علی شاد کا آبائی وطن یاغستان تھا لیکن وہ غالباً 1900 ء لوہارو (ضلع بھوانی، موجودہ صوبہ ہریانہ)میں پیدا ہوئے۔ بہت ذہین طالب علم تھے۔ گھر میں فاسی اور عربی زبانوں کی تعلیم حاصل کی تھی اور دونوں زبانوں پر مہارت رکھتے تھے۔ روایت ہے کہ عربی زبان کے شاہکار قصائد جو ’سبع معلقات‘ کے نام سے مشہور ہیں اور متفقہ طور پر زمانۂ جاہلیت کی شاعری کا بہترین کلام قرار دیے جاتے ہیں، انھیں ازبر تھے۔ فارسی میں وہ غزلیات ہی نہیں، انوری، خاقانی اور عرفی جیسے مشکل شعراء کے قصائد پر عبور رکھتے تھے۔ پھر انگریزی سکول میں داخل ہوئے۔ اس دوران ان کے والد ریاست رامپور منتقل ہوچکے تھے۔ شاد دسویں جماعت میں تھے اور انگریزی زبان بڑے شوق سے سیکھ رہے تھے کہ والد کا انتقال ہوگیا۔ انھوں نے مجبوراً تعلیم ترک کردی اور والدہ کے علاوہ بہنوں کے لیے زندگی وقف کردی۔ چونکہ رسمی تعلیم بہت کم تھی اور ملازمت کے لیے قابلیت کی بجائے ڈگری دیکھی جاتی ہے، اس لیے سکول میں مدرسی کی یا ٹیوشن پڑھا کر گزر اوقات کرتے رہے۔ ماں کے انتقال اور بہنوں کی شادیوں کے بعد چالیس سکول کی عمر میں اپنی شادی کی۔ یہ خوشی بھی عارضی ثابت ہوئی اور شادی کے دو سال کے اندر اندر بیوی کا انتقال ہوگیا۔ قرۃ العین حیدر کے ایک ناول ’چاندنی بیگم‘ کا ایک کردار اپنی بدنصیبی کے ہاتھوں نالاں ہوکر یوں خود کلامی کرتا ہے کہ ’میرے ساتھ ہی ایسا کیوں ہوا؟‘اس کا جواب دینا بہت مشکل ہے۔ یہی کچھ شاد کے ساتھ ہوا۔
حکومت ہند کی عوام دشمن سرگرمیوں پر وہ ہمیشہ اپنے اشعار میں تنقید کیا کرتے تھے۔ ہندوستان میں (اور ہاں پاکستان میں بھی)آزادی کے بعد لوگوں نے جو حالات دیکھے، تحریک آزادی کے دوران پیدا ہونے والی خوش فہمیاں جلد ہی دم توڑ گئیں۔ سب کچھ بدستور بالائی طبقوں کے قبضے میں رہا بلکہ وہ پہلے سے زیادہ مستحکم ہوگئے۔ جاگیردار اور سرمایہ دار اسمبلیوں میں جاپہنچے۔ اپنی مرضی کے قانون بنانے لگے۔ بس وہی نقشہ نظر آنے لگا جو ماریو پوزو نے اپنے ناول ’گاڈ فادر‘ میں پیش کیا ہے۔ اسی فریب کا نام جمہوریت رکھ دیا گیا جہاں مافیاز انصاف سمیت سب کچھ خرید سکتے ہیں۔ اس سسٹم میں وہی شخص بچ سکتا ہے جو ظالموں کے ساتھ سمجھوتہ کرے مگر شاد عارفی ایسا نہیں کرسکتا تھا۔ اگرچہ اسے ترقی کا یہ ’راز‘ معلوم تھا مگر اس کی غیرت اس بات کو گوارا نہیں کرتی تھی:
کہہ رہے ہیں کہ پڑو پائوں نگہبانوں کے
آپ ہمدرد ہیں ہم سوختہ سامانوں کے
چند استثنائی مثالیں اس پر عمل نہیںکرسکتیں اور شاد بھی انھی میں سے تھے۔ وہ معاشرے میں فروغ پذیر منافت، ظلم و جبر، استحصال ، بے انصافی کا سچا اور کھرا نقشہ پیش کرتے رہے مگر اس سے مافیاز کو کیا فرق پڑتا ہے! آپ کرنسی نوٹوں پر بے شک لکھ دیں کہ ’حصولِ رزقِ حلال عبادت ہے‘ مگر اس سے رشوت رکی ہے نہ رکے گی۔ میرا خیال ہے کہ دیانت اور محنت سے اپنے فرائض ادا کرنے والے صرف اپنے اطمینان کے لیے ہی ایسا کرتے ہیں ورنہ ہمارے جیسے معاشروں میں ہر طرف ’کسی نمی پُرسد‘ والی صورتحال ہی نظر آتی ہے۔ شاد عارفی کے کچھ اشعار دیکھیے:
نگہبانِ وطن کو راہزن کہہ دوں تو کیا ہوگا
کسی بھی بدچلن کو بدچلن کہہ دوں تو کیا ہوگا
اندھیرے کو اندھیرا ہی کہیں گے دیکھنے والے
سوادِ شام کو صبحِ وطن کہہ دوں تو کیا ہوگا
=====
میں پڑوسی ہوں بڑے دیندار کا
کیا بگڑتا ہے مگرمے خوار کا
ہم خدا کے ہیں وطن سرکار
حکم چلتا ہے مگر زردار کا
=====
پیٹھ پیچھے جو کہا تھا وہ کہا منہ پر بھی
فکرِ فردا نے صداقت سے مکرنے نہ دیا
’فکرِ فردا‘ سے مراد آنے والی زندگی ہے۔ اگر کسی کو میدانِ حشر میں میزانِ عدل پر اعتقاد ہو تو وہ منافقت اختیار کرہی نہیں سکتا۔
دیکھ لینا کہ ہر ستم کا نام
عدل ہوگا کسی زمانے میں
کیا ہم یہی کچھ اپنے اردگرد نہیں دیکھ رہے؟ اور کیا منافقت سے پُر معاشرہ ہے!
اِدھر منہ دیکھ کر روتے ہو یارو
اُدھر منہ پھیر کر ہنسنے لگو گے
اور پھر یہی نہیں۔ یہ دنیا، اس کی ساری تاریخ، اس کے اتفاقات، آغاز سے اب تک کی اونچ نیچ یعنی عدم مساوات، نظامِ قدرت کے سامنے عقل کا عاجز آجانا وغیرہ وغیرہ۔ شاد عارفی کا دل مسلمان کا تھا اس لیے وہ خیال کرتے تھے کہ تقدیر اور اتفاقات کا دنیا میں اگرچہ بڑا کردار ہے مگر یہ نظام کبھی بدلے گا:
یقیں کیجیے انقلاباتِ ہستی
محلات کے سائے سائے کھڑے ہیں
بدلتا نظر تو نہیں آتا مگر اللہ مالک ہے:
اپنی مرضی سے تو اگتے نہیں خود رو پودے
ہم غریبوں کا بہرحال نگہباں ہے کوئی
بالآخر دمے اور تپ دق کا مریض یہ شاعر 1964ء میں رامپور ہی میں دنیا سے رخصت ہوا۔ شاد عارفی جنتا منفرد اور رنگارنگ شاعر ہے، اس کے مختلف پہلوئوں کی تفہیم آسان نہیں۔ اس پر بھارت میں صرف ڈاکٹر مظفر حنفی نے کام کیا ہے۔ پاکستان میں ہمارے اعلیٰ درجے کے طلبہ اس کے نام سے بھی بے خبر ہیں مگر اس پر تعجب نہیں ہونا چاہیے۔ تین سال سے پنجاب یونیورسٹی کے شعبۂ اردو میں حالی اور اکبر الٰہ آبادی کی تدریس بند ہے تو شادعارفی کو کون پوچھے گا۔ اساتذہ کو معلوم ہی ہوگا کہ کئی پی ایچ ڈی کی ڈگریاں لینے والوں کے لیے جوش ملیح آبادی اور اے جی جوش میں کوئی فرق نہیں!