قومی اسمبلی : ارکان میں کئی با تلخ کلامی ، آغارفیع نے قاسم سوری کو چمچہ کہہ دیا
اسلام آباد (نامہ نگار) قومی اسمبلی کے اجلاس میں تحریک انصاف اور پیپلز پارٹی کے ارکان میں شدید تلخ کلامی ہو گئی۔ اس دوران ڈپٹی سپیکر قاسم سوری اور پیپلز پارٹی کے رکن آغا رفیع اللہ کے درمیان سخت جملوں کا تبادلہ ہوا۔ ڈپٹی سپیکر نے آغا رفیع اللہ سے کہا کہ آپ چمچہ گیری نہ کریں بیٹھ جائیں آپ کو وقت مل چکا ہے ہو شیاری نہ دکھائیں۔ جس پر آغا رفیع اللہ نے ڈپٹی سپیکر کو چمچہ کہہ دیا۔ جس پر ڈپٹی سپیکر نے کہا کہ آرام سے بیٹھو، پیار سے بو لو اور پیار سے بولنا سیکھو۔ اس دوران وفاقی وزیر انسانی حقوق ڈاکٹر شیریں مزاری اور شازیہ مری کے درمیان بھی تلخی ہوئی۔ تحریک انصاف کے رکن سیف اللہ اور مسلم لیگ (ن) کے مرتضیٰ جاوید عباسی کے درمیان بھی تلخ جملوں کا تبادلہ ہوا۔ قومی اسمبلی کا اجلاس جاری تھا کہ پیپلز پارٹی کی رکن شازیہ مری نے نکتہ اعتراض پر کہا کہ صادق آباد میں دوپہر کے وقت 10اکتوبر کو نو افراد قتل کر دیا گیا آٹھ افراد کا تعلق ایک ہی خاندان سے تھا، اس علاقے میں ڈاکو راج قائم ہو چکا ہے لوگ شام پانچ بجے کے بعد گھروں سے نہیں نکلتے۔ جس پر وفاقی وزیر انسانی حقوق ڈاکٹر شیریں مزاری نے کہا دوسری جانب سندھ میں کشمور کا علاقہ ہے جہاں سے یہ ڈاکو آتے ہیں سندھ پولیس ان کے خلاف کارروائی نہیں کرتی۔ کشمور سے شروع ہو کر یہ ادھر پنجاب میں کچے کے علاقے میں آتے ہیں۔ جس پر پیلزپارٹی کے ارکان نے شور شرابہ شروع کر دیا اور ڈپٹی سپیکر سے کہا کہ آپ اپنے رکن ریاض مزاری کو موقع دیں اور ان کی بات بھی سنیں، ریاض مزاری نے کہا کہ ہمارے علاقے کے لوگ صرف امن مانگتے ہیں میں نے وزیر اعظم، وزیر اعلی، آئی جی پنجاب سمیت سب کے ساتھ ملاقاتیں کی ہیں، سب کو پتہ ہے کہ ڈاکو کہاں بیٹھے ہیں لیکن کسی میں ان کو پکڑنے کی جرات نہیں ہے۔ یہاں ایوان میں نہ کوئی وزیر ہوتا ہے اور نہ کوئی وزیر سننے کو تیار ہے۔ جس پر ڈپٹی سپیکر نے معاملہ داخلہ کمیٹی کو بھجوا دیا۔ ڈپٹی سپیکر قومی اسمبلی قاسم خان سوری نے فاٹا کے انضمام کے موقع پر قبائلی اضلاع کے عوام سے کئے گئے وعدوں پر عملدرآمد کی صورتحال کا جائزہ لینے کے لئے معاملہ فاٹا اصلاحات کے لئے قائم خصوصی کمیٹی کے سپرد کرتے ہوئے ہدایت کی ہے کہ ایوان میں اس کی تفصیلی رپورٹ پیش کی جائے۔ مسلم لیگ (ن) کے رکن مرتضیٰ جاوید عباسی نے کہا کہ تین صوبوں میں تحریک انصاف کی حکومت ہے وفاقی حکومت بتائے کہ اس نے فاٹا کے علاقے کے لیے تین سالوں میں کیا کیا ہے۔ قومی اسمبلی میں حکومت نے وفاقی دارالحکومت اسلام آباد کے بڑے سرکاری ہسپتالوں پمز اور نرم میں ایم آر آئی مشینیں خراب ہونے کا اعتراف کر لیا۔ وزیر مملکت برائے پارلیمانی امور علی محمد خان نے کہا کہ 2017-18 میں جب ہم نے فاٹا کو کے پی میں ضم کرنے کا بل منظور کیا اس وقت تمام صوبوں نے وعدہ کیا تھا کہ این ایف سی کا وہ اپنا 3فیصد حصہ ڈالیں گے کیونکہ قبائلی علاقے دہشتگردی سے شدید متاثر ہوئے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ قبائلی علاقوں کے عوام کا کہنا ہے کہ صوبے بھی اپنے وعدے کے مطابق اس میں اپنا حصہ ڈالیں۔ یہ وعدہ ریاست پاکستان نے قبائلی اضلاع کے عوام سے کیا تھا۔ اس معاملے کو خزانہ کی قائمہ کمیٹی کے سپرد کیا جائے۔ ہمیں پنجاب ، سندھ اور بلوچستان کے تعاون کی اشد ضرورت ہے۔ نویں این ایف سی ایوارڈ میں سندھ نے معذوری کا اظہار کیا تھا۔ دسویں این ایف سی ایوارڈ کے لئے کمیٹی کا اجلاس ہونا ہے، ایف بی آر نے بتایا ہے کہ گھی اور سٹیل پر قبائلی اضلاع کے لئے 2019 میں لگائی گئی فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی واپس لے لی ہے۔ ایک اور سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ جب یہاں پر انضمام کا فیصلہ ہوا تھا اس وقت ایوان میں تمام صوبوں کی مرکزی قیادت موجود تھی اور ان کے اس بل پر دستخط موجود ہیں۔ ایک اور سوال کے جواب میں علی محمد خان نے کہا کہ وزیراعظم عمران خان کو بھی فاٹا کے انضمام پر دستخط کرنے کا اعزاز حاصل ہے۔ ٹرائبل بیلٹ کی دو کروڑ کی آبادی ہے۔ کے پی کے وزیراعلی محمود خان اپنی ذمہ داریاں احسن انداز میں پوری کر رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان وفاقی اکائیوں پر مشتمل ہے، کوئی زور زبردستی نہیں ہے۔ رکن قومی اسمبلی اسامہ قادری کے کرپٹو کرنسی کے لئے انضباطی فریم ورک تشکیل نہ دینے سے متعلق توجہ مبذول نوٹس کا جواب دیتے ہوئے وزیر مملکت برائے پارلیمانی امور علی محمد خان نے کہا کہ کرپٹو کرنسی ایک نیا تصور ہے۔ اگر ملک نے اس طرف جانا ہے تو ہم مخالفت نہیں کریں گے۔ سٹیٹ بنک اس کا جائزہ لے رہا ہے۔ اس معاملے کو خزانہ کی کمیٹی کے سپرد کردیا جائے۔منورہ بی بی بلوچ کے سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ صحت سہولت پروگرام وفاق کا ایک سماجی صحت کے تحفظ کا اقدام ہے اور صوبائی حکومتیں اس میں شرکت کرتی ہیں جس کے ذریعے پروگرام سے مستفید ہونے والوں کو مفت اور نقدی کے بغیر ان ڈور صحت کی نگہداشت کی خدمت کے لئے قومی صحت کارڈ فراہم کئے جاتے ہیں۔ 2016 سے 2018 کے عرصہ سے بلوچستان کے کوئٹہ، لورا لائی ، کیج، لسبیلا اور گوادر کے اضلاع میں اس پروگرام کے تحت صحت کی نگہداشت کی خدمات فراہم کی جارہی تھیں۔