اپوزیشن جماعتوں کی ملک گیر احتجاج کی کال
سید شعیب شاہ رم
پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں ہوشربا اضافہ، بجلی کی ٹیرف بڑھنے اور شدید مہنگائی کے طوفان پر اپوزیشن جماعتوں نے ملک گیر احتجاج کی کال دیدی ہے۔ جسے دیکھیں وہ یہی بات کرتا نظر آتا ہے کہ ملک میں مہنگائی کے ہاتھوں عام آدمی کی زندگی عذاب بن کر رہ گئی ہے۔ ہر چیز عام آدمی کی پہنچ سے باہر ہوتی جارہی ہے، جو لوگ حکومت کی تعین کردہ کم از کم تنخواہ 20ہزار ماہانہ کماتے ہیں ان کیلئے اخراجات پورے کرنا ممکن ہی نہیں رہا۔ گھی، چینی، تیل، آٹا ، دالیں اور چاول سب کی قیمتیں کئی کئی گناہ بڑھ چکی ہیں۔ روز کی اجرت کمانے والوں کا حال تو اس سے بھی برا ہے۔ جو طبقہ اپنی سفید پوشی کا بھرم رکھے ہوئے تھا اب وہ طبقہ زکوٰۃ اور خیرات لینے پر مجبور ہوگیا ہے ۔ وہ شخص جو چند سال پہلے تک باعزت طریقے سے اپنے اہل خانہ کی ضرورتیں پوری کر رہا تھا آج وہ اتنا مجبور ہوگیا ہے کہ دو وقت کی روٹی کیلئے اسے لوگوں اورفلاحی اداروں سے زکوٰۃ اور خیرات لینی پڑ رہی ہے۔ بے روزگاری کا یہ عالم ہے ہر دوسرے گھر میں آپ کو بے روزگار افراد مل جائیں گے جو مایوسی ، ڈپریشن اور نفسیاتی مسائل کا شکارہو رہے ہیں۔ عزت نفس بری طرح مجروح ہوچکی ہے، خیراتی اداروں اور لنگر خانوں پر رش بڑھتا جا رہا ہے، جسے حکومتی اراکین اپنا کارنامہ سمجھتے ہیں وہ دراصل لمحہ فکریہ ہے۔ لنگر خانوں ، خیراتی اداروں پر بے بس عوام کا بڑھتا ہوا انحصار کسی لحاظ سے بھی اچھی علامت نہیں ۔ جو بے روز گار مہنگائی کے مارے لوگ وہاں جاکر اپنے چھوٹے چھوٹے بچوں کیلئے کھانہ مانگ کر لیاتے ہیں،ایسے لوگوں کے دل پر کیا گزرتی ہے سوچ کر روح کانپ جاتی ہے۔
حکومت نے چند روز پہلے پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں بہت زیادہ اضافہ کیا جس سے ایندھن کی قیمت ملکی تاریخ کی بلند ترین سطح پر پہنچ گئی۔ ایسے میں حکومتی اراکین کی جانب سے یہی پیغام دیا جا رہا ہے کہ گھبرانا نہیں ہے۔ اپوزیشن جماعتیں بظاہر آپس میں نا اتفاقی کے باعث ایک نقطہ پر جمع نہیں ہوسکیں۔ حکومت کا پروپیگنڈہ محاذگزشتہ تین سال کے دوران اپوزیشن کی تمام کوششوں کو ناکام بناتا چلا آ رہا ہے۔ اب بظاہر عوام کی آواز اٹھانے والا ملک میں کوئی نہیں۔ جبکہ حکومت کے پاس اچھے برے فیصلوں کیلئے کھلا میدان دستیاب رہا ہے ، اس کے باوجود یہ عوام کیلئے کوئی ریلیف نہ دے سکی۔ حکومت اس موقع کا فائدہ اٹھانے کی بجائے صرف آئی ایم ایف کا اعتماد حاصل کرنے کی کوشش کرتی رہی ہے۔ آئی ایم ایف کو قائل کرنے کیلئے حکومت نے تن من دھن ہر چیز کی بازی لگادی اور ہر مرتبہ سر تسلیم خم کرتے ہوئے، آئی ایم ایف کے مطالبہ سے قبل ہی تمام اشیاء کی قیمتوں میں اضافہ کردیا گیا۔ ۔
ملک میں مہنگائی کے طوفان نے دم توڑتی اپوزیشن میں ایک نئی روح پھونک دی ہے۔ وہ سب آج حکومت کے خلاف تحریک چلانے کی بات کر رہے ہیں۔ لیکن غور طلب بات یہ ہے کہ آج بھی اپوزیشن متحد نہیں ، آج بھی وہ کئی حصوں میں بٹے ہوئے ہیں۔ پی ڈی ایم میں شامل تمام جماعتیں الگ الگ تحریک چلانے کی بات کر رہی ہیں ادھر سندھ میں حکمران جماعت پیپلز پارٹی بھی علیحدہ تحریک چلانے کا اعلان کر چکی ہے۔ پی ڈی ایم نے تو ملک گیر احتجاج کی کال دیدی اسی طرح بلاول بھٹو نے باغ جناح میں جلسے سے خطاب کرتے ہوئے علیحدہ تحریک بھی چلانے کا اعلان کردیا۔ مختلف حصوں میں بٹی اپوزیشن جماعتوں کی علیحدہ علیحدہ تحریک کتنا اثر کر سکے گی یہ تو آنے والا وقت ہی بتائے گا۔ لیکن حکومت کیلئے لمحہ فکریہ ہے کہ ان تحریکوں کو عوام کی سپورٹ حاصل ہوسکتی ہے۔ ہر گھر کا اب صرف ایک ہی مسئلہ ہے اور وہ ہے دو وقت کی روٹی کیسے مل سکتی ہے۔ لوگوں نے اب تمام جماعتوں کو آزما لیا، حکومت عوام کی مشکلات دور کرنے میں ناکام رہی بلکہ الٹا قرضوں کا نیا بوجھ لادھنے کا باعث اس قدر مہنگائی کبھی نہ تھی۔ عوام کیا رد عمل دیتے ہیں اس کی پیشگوئی کرنا مشکل سہی لیکن اپوزیشن جماعتوں کو ایک بہترین موقع مل گیا ہے کہ وہ حکومت کو ناکوں چنے چبوا سکے۔
اگر اپوزیشن جماعتوں پر نظر ڈالی جائے تو پی ڈی ایم میں صرف مسلم لیگ (ن) اور مولانا فضل الرحمان کی جماعت اپنے ملک گیر مدرسوں کی بدولت عوامی اجتماعات کر سکتے ہیں، یا پھر سندھ کی حکمران جماعت پیپلز پارٹی یہ سکت رکھتی ہے کہ وہ حکومت کے خلاف عوام کو جمع کر سکیں، لیکن ان سب میں اتفاق اور اتحاد کا فقدان ہے۔ سب کا مقصد الگ الگ ہے، نون لیگ کا مقصد نواز شریف کو بحال کرانا اور عمران خان کی حکومت کو چلتا کرنا ہے، پیپلز پارٹی کا مقصد کم سے کم نقصان میں حکومت مخالف تحریک چلانا ہے، جبکہ مولانا فضل الرحمان اپنی سیاسی ساکھ کو بچانے کیلئے حکومت کے مخالف تحریک چلانا چاہتے ہیں ، کیونکہ ان کا موجودہ سیاسی سیٹ اپ میں کوئی اسٹیک نہیں لہذا ان کی حکمت عملی کافی جارحانہ ہے۔ پیپلز پارٹی وہ واحد اپوزیشن کی جماعت ہے جو موجودہ سیٹ اپ میں ایک بڑا اسٹیک رکھتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ماضی میں استعفوں کی بات نہیں بنی، کیونکہ نون لیگ کے کسی صوبہ میں حکومت نہیں، ان کے پاس قومی اور صوبائی اسمبلی میں تھوڑی بہت تعداد ہے، ادھر مولانا فضل الرحمان کی نہ تو کہیں حکومت ہے اور نہ ہی ان کے پاس ایم این ایز اور ایم پی ایز کی اتنی تعداد ہے کہ جن کے استعفوں سے اسمبلی میں کوئی فرق پڑے، ہاں پیپلز پارٹی کے پاس ایک صوبہ کی حکومت ہے ۔ اس وجہ سے پی ڈی ایم میں اختلاف رائے بھی ہوا، سب کو یاد ہوگا کہ پیپلز پارٹی اسمبلیوں سے استعفیٰ دینے کی حامی نہیں تھی، جس کی وجہ سے پی ڈی ایم میں اختلافات بڑھتے گئے ۔حالانکہ جو صوبہ ملک کو سب سے زیادہ ریونیو دیتا ہے، اس کے باعث سندھ حکومت وفاق کو بلیک میل کرنے کی پوزیشن بھی رکھتی ہے ۔
حکومت اب بھی ہوش کے ناخن لے تو بات بن سکتی ہے۔ ماہرین کے مطابق ملک میں طوفانی مہنگائی کی اصل وجہ روپے کی قیمت کو کم کرنا ہے، گورنر اسٹیٹ بینک ڈاکٹر رضا باقر نے ناجانے حکومت پر کیا جادو کیا ہے کہ حکومت روپے کی بے قدری کی اتنی حامی ہے کہ انہوں نے ہر طبقہ فکر کی جانب سے اس کی مخالفت کو نظر انداز کرتے ہوئے روپے کو دنیا کی حقیر ترین کرنسیوں میں شامل کروادیا۔ یا یہ کہیے کہ آئی ایم ایف کا خوف حکومت پر اتنا تھا کہ وہ ان کی شرائط پر کسی طرح کی بارگین کرنے کا سوچ بھی نہیں سکے۔ ماضی میں حکومتیں آئی ایم ایف کے احکامات پر مہنگائی میں اضافہ کرتی لیکن آج حکومت آئی ایم ایف کی ہدایت سے پہلے ہی انہیں خوش کرنے کیلئے مہنگائی کا پہاڑ عوام پر گرا دیتے ہیں ، لیکن جواب میں انہیں ڈو مور ہی ملتا ہے۔ اس دفعہ بھی یہی ہوا، حکومت نے مذاکرات سے قبل ہی مہنگائی میں اضافہ کردیا، اشرافیہ کے علاوہ عوام سے ہر طرح کی سبسڈی واپس لے لی گئی۔ بجلی ، گھی ، آٹااور چینی جیسی بنیادی اشیاء کی قیمتوں میں ہوشربا اضافہ کرکے یہ سوچ کر مذاکرات کی ٹیبل پر گئے کہ آئی ایم ایف کی ٹیم ان کا کھڑے ہوکر استقبال کریں گے اور انہیں شاباش دیں گے کہ انہوں نے پہلے ہی شرط پوری کردی تو انہیں قرضے کی اگلی قسط فوری طور پر جاری کردی جائے گی۔
ملک کے وزیر خزانہ شوکت ترین آئی ایم ایف سے مذاکرات کے دوران اب مشیر خزانہ بن چکے ہیں۔ آئی ایم ایف کی ٹیم ان کے اقدامات سے اب بھی خوش نہیں ۔ مذاکرات کی ناکامی کے بعد اب حکومت بھی پریشان ہے کہ ملک کو آگے کیسے چلایا جائے، آئی ایم ایف سے مشروط رہنے پر قرضوں اور امداد کو حصول آسان رہتا ہے، لیکن جب آئی ایم ایف سر پر سے ہاتھ ہٹالے گا تو کون پاکستان کی مدد کرے گا۔ کیسے معاشی معاملات چلائے جائیں گے، اسی کشمکش میں مشیر خزانہ اس وقت امریکہ میں براجمان ہیں اور آئی ایم ایف کو منانے کی بھرپور کوششیں کر رہے ہیں۔
یہی وجہ ہے کہ اب عوام مزید مہنگائی کیلئے تیار ہوجائیں۔ کیونکہ اطلاعات ہیں کہ آنے والے دنوںمیں پیٹرول میں مزید 10روپے لیٹر اور اشیائے خوردونوش کی قیمتوں میں مزید اضافہ ہو جائے گا۔