• news

خورشیدہ شاہ کی2برس بعد ضمانت منظور:نام ای سی ایل میں رہیگا،سپریم کورٹ،شہباز شریف کی مبارکباد


اسلام آباد+لاہور(خصوصی رپورٹر+ خبر نگار+نوائے وقت رپورٹ) سپریم کورٹ نے  آمدن  سے زائد اثاثوں  کے کیس میں پیپلزپارٹی کے رہنما خورشید شاہ کی2 برس بعد ضمانت منظور کرلی۔ عدالت عظمیٰ نے سابق اپوزیشن لیڈر کی ایک کروڑ روپے کے مچلکوں کے عوض ضمانت منظور کی ہے۔ سپریم کورٹ نے کہا کہ نیب خورشید شاہ کو گرفتار رکھنے کا کوئی جواز نہیں پیش نہیں کر سکا۔ نیب کے پراسیکیوٹر نے موقف اپنایا کہ خورشید شاہ کیخلاف تحقیقات مکمل ہو گئی ہے، تاہم وکیلوں کی ہڑتال ہنگامہ کی وجہ سے ریفرنس دائر نہ ہو سکا، جس پر خورشید شاہ کے وکیل نے کہا کہ نیب نے خورشید شاہ پر 574 ایکڑ زرعی کی خریداری پر کرپشن کا الزام لگایا، 574 ایکڑ زمین کی قیمت خرید سیل ڈیڈ اور کلکٹر کے نوٹیفکیشن سے کنفرم ہوتی ہے۔ جسٹس عمر عطا بندیال نے استفسار کیا کہ اب تک کتنے گواہوں کے بیان ریکارڈ ہوئے ہیں۔ جسٹس منصور علی شاہ نے کہاکتنی پراپرٹیز پر نیب نے خورشید شاہ کیخلاف ریفرنس بنایا۔ جس پر خورشید شاہ کے وکیل نے بتا یا کہ 12 پراپرٹیز اور 5 بنک اکائونٹس کو جواز بنا کر ریفرنس بنایا گیا۔ ٹپہ دار نے تسلیم کیا انہوں زمین کی قیمت اندازہ کے مطابق لگائی، یہ بنجر 1039 ایکڑ زمین 1979 میں 80 ہزار میں خریدی۔ عبد الستار پیرازادہ نے یہ زمین 1982 میں آگے فروخت کردی، عندر خاندان سے زمین خورشید شاہ نے خریدی۔ جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کیا یہ زمین نہری ہے، اگر نہری زمین ہے تو اسکی قیمت زیادہ ہو گی، اگر بارانی یا بنجر زمین ہے تو ویلیو کم ہو گی۔ مخدوم علی خان نے کہا زمین کو اب لفٹ ایریگیشن کے ذریعے سیراب کیا جاتا ہے۔ جسٹس منصور علی شاہ نے کہا نیب خورشید شاہ کے خلاف کوئی ایک ٹھوس ثبوت دکھا دے۔ جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا نیب بتادے کہ جو خورشید شاہ پر الزامات ہیں کیا وہ تحقیقات میں ثابت ہوئے؟ نیب کے تو گواہ بھی خورشید شاہ کے مخالف ہیں، دو سال سے زائد کا عرصہ گزر چکا گرفتاری کو لیکن ابھی تک نیب الزامات ثابت نہیں کرسکا، جب ملزم ہی آپ کی حراست میں ہے تو وہ کیسے آپ کو متعلقہ دستاویزات فراہم کرے گا، حراست میں رہ کر کسی کو فون کرکے نہیں بتایا جاسکتا کہ فلاں الماری میں سے وہ دستاویز نکال کر لے آئیں۔ پراسیکیوٹر نیب نے کہا خورشید شاہ نے بیرون ممالک کا چالیس مرتبہ سفر کیا اور انکے خاندان والوں نے بھی سو مرتبہ دورے کیے۔ جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا سفری اخراجات کا تو نیب خود حساب لگاتا کیا اس کی بھی تفصیل کیا ملزم نے فراہم کرنی ہے۔ خورشید شاہ کوئی غریب شخص تو نہیں انہوں نے خود ظاہر کیا تھا کہ ان کے خاندان کے پاس 37 کروڑ کیش میں ہے۔ کیا نیب کے پاس صرف یہی ایک واحد ثبوت ہے کہ خورشید شاہ  چالیس مرتبہ بیرون ملک گئے۔  جس کے بعد عدالت نے قرار دیا کہ خورشید شاہ کو مزید حراست میں رکھنے کی ٹھوس وجوہات موجود نہیں۔ عدالت نے قرار دیا کہ خورشید شاہ کا نام ای سی ایل میں رہے گا۔ تاہم اس حوالے سے ٹرائل کورٹ فیصلہ کر سکتی ہے۔ یاد رہے کہ سندھ ہائیکورٹ نے پی پی رہنما خورشید شاہ کی ضمانت کو مسترد کیا تھا جسے انہوں نے سپریم کورٹ میں چیلنج کیا تھا۔ سپریم کورٹ  کے باہر قمر زمان کائرہ   نے کہا کہ  انشاء اللہ لانگ مارچ ہوگا اور یہ حکومت گھر جائے گی۔ جو تحریک عوام کے پیٹ سے جڑی ہو وہ ضرور کامیاب ہوتی ہے۔  سپریم کورٹ کا شکریہ ادا کرتے ہیں کہ خورشید شاہ کو انصاف کے مطابق ضمانت دی۔ خورشید شاہ عوامی ورکر ہیں انکو جیل بھیج کے عوام کے ساتھ زیادتی کی گئی۔ پیپلز پارٹی اللہ کے سوا کسی سے نہ ڈرتی ہے نا کوئی ریلیف چاہتی ہے۔ پیپلزپارٹی نے ہمیشہ عدالتوں کا سامنا کیا۔ انشاء اللہ لانگ مارچ ہوگا اور یہ حکومت گھر جائے گی۔ ایک سوال کے جواب میں قمر الزماں کائرہ نے کہااگر پی ڈی ایم سے ہتک آمیز رویہ کا سامنا نہ ہوتا تو آج یہ حکمران جاچکے ہوتے۔ پی ڈی ایم فوت ہوچکی ہے۔ پیپلز پارٹی کہتی ہے تمام صوبوں نے گندم سٹاک کی۔ وفاقی حکومت اپنی غلطیوں کا جواب سندھ سے نہ مانگے۔ اب اس حکومت کا جانا ٹھہر گیا ہے۔ نئیر بخاری نے کہا اللہ پاک کا شکر ادا کرتے ہیں، عدالت نے انصاف کے تقاضوں کے مطابق فیصلہ دیا۔ نیب نے کہا کہ ابھی سپلیمنٹری ریفرنس دائر کرنا ہے۔ خورشید شاہ کو ضمانت ملنے پر مبارکباد دیتے ہیں۔ موجودہ حکومت نے بدنیتی کی بنیاد پر خورشید شاہ کیخلاف مقدمات بنائے۔ پیپلز پارٹی پر مقدمات آج سے نہیں کئی برس پہلے سے بنائے گئے۔ پیپلز پارٹی سیاسی جماعت ہے جس کے کارکن کبھی مقدمات بنانے پر باہر نہیں نکلے۔ عدالتوں کو ایگزیکٹو سے نہ ملایا جائے۔ ہمیں عدالت نے ریلیف دیا ہے۔ لاہور سے خصوصی رپورٹر کے مطابق شہباز شریف نے سید خورشید شاہ کو درخواست ضمانت منظور ہونے پر مبارکباد دیتے ہوئے کہا کہ طویل عرصے سے سیاسی انتقام  کا نشانہ بننے والے خورشید شاہ کو پروانہ رہائی ملنے پر دلی خوشی ہے۔ جھوٹے، بے بنیاد اور سیاسی انتقام پر مبنی جعلی احتساب کا ڈرامہ بند ہونا چاہئے۔ خورشید شاہ قد آور سیاسی رہنما ہیں۔ امید ہے وہ بھرپور انداز میں اپنا سیاسی کردار پھر سے ادا کرنا شروع کریں گے۔

ای پیپر-دی نیشن