سوہنیاں دے اتے لگے گا ٹیکس
معروف بین الاقوامی جریدے دی اکانومسٹ کی رپورٹ کے مطابق مہنگائی کے اعتبار سے پاکستان دنیا کے 43 ممالک میں چوتھے نمبر پر آچکا ہے۔ اسی لیے پاکستان میں حالیہ مہنگائی اور روز بروز لگنے والے ٹیکسوں کی گردش کرنے والی خبروں نے سوسائٹی میں ہر طبقہ کو متاثر کر رکھا ہے۔ جابجا گرانی اور نئے ٹیکسوں سے جنم لینے والے مسائل پر بحث ہو رہی ہے۔ سٹریٹ کارنرز سے لیکر پارلیمان کے ایوانوں تک اور چوپال سے سوشل میڈیا تک ہر مرکز پر یہی مباحثہ ہے۔''ہائے رے مہنگائی''۔ سنجیدہ بحثوں کے علاوہ ہلکے پھلکے انداز میں مہنگائی کی پیداوار یعنی'' ٹیکسوں'' پر تبصرے اور طنز جاری ہیں۔ آئے روز نت نئے ٹیکسوں پر سید سلمان شاہ گیلانی نے بھی ایک نظم لکھی ہے۔
بھنگڑے پہ اور دھمال پہ بھی ٹیکس لگ گیا
واعظ کے قیل و قال پہ بھی ٹیکس لگ گیا
شادی کے بارے میں کبھی نہ سوچنا چھڑو
سنتے ہیں اس خیال پہ بھی ٹیکس لگ گیا
ہے جس حسین کے گال پہ ڈمپل کوئی کہ تِل
ہر اس حسین کے گال پہ بھی ٹیکس لگ گیا
مزید برآں ارشاد جاگیرانی کی پیروڈی بھی ملاحظہ ہو۔
جب کوئی نیا ٹیکس لگائے گا
تم کو ایک شحض یاد آئے گا
ٹیکس پہ ٹیکس سے عوام سراسیمگی کے عالم میں ایک دوسرے کی جانب دیکھ رہے ہیں کہ اس ہوشربا مہنگائی نے تو سب کی کمر توڑ دی ہے۔ اشیاء خوردونوش متوسط طبقہ کی دسترس سے باہر ہوتی جا رہی ہیں اور سفید پوش افراد خط غربت کو بھی عبور کر گئے ہیں۔ بازاروں میں سبزیاں منہ چڑھاتی ہیں، پھلوں کو ہاتھ لگاؤ تو وہ کاٹنے کو دوڑتے ہیں۔ گوشت قصاب کی دکانوں پر صرف شو پیس بن کر رہ گئے ہیں۔ تحریک انصاف کا آغاز بڑی تبدیلی کے نام پر ہوا اور یہی تبدیلی اب عوام کو جگتیں کرتی نظر آتی ہے۔مستقبل میں اتنے ٹیکسوں کی اطلاعات ہیں اور ان پر میرا یہ زعم ہے کہ'' بس اب حسن پہ ٹیکس لگنا باقی رہ گیا ہے''۔ اشرافیہ کو کیا معلوم کہ بندہ مزدور کے اوقات کتنے تلخ ہیں، کراچی سے کشمیر تک عام پاکستانی کو صرف اشیائے ضروریہ خریدنے میں ہی مشکلات کا سامنا نہیں بلکہ روزی روٹی کمانے کی حاظر دفتر یا کارخانے/فیکڑی جانے کے لیے بھی جیب ساتھ نہیں دیتی۔
مانتے ہیں کہ عالمی منڈی میں قیمتیں توقع کے برعکس بڑھی ہیں اور ان عوامل پر حکومت کا کنٹرول نہیں ہے۔ دوسرے ممالک میں پٹرول کی قیمتیں بھی یقینی بڑھی ہونگی لیکن وہاں لاکھوں افراد کو ایک جگہ سے دوسری جگہ پر پہنچانے والا ماس ٹرانزٹ سسٹم موجود ہے۔ اکثر و بیشتر یورپین ممالک میں سوشل سیکیورٹی، بیروزگاری الاؤنس، ہیلتھ انشورنس موجود ہے۔ تجارتی لحاظ سے دوکانداروں میں منافع کی ہوس نہ ہونے کے برابر ہے۔
مضحکہ خیز بات تو یہ ہے کہ حکومتی وزراء نے پاکستان کے لوگوں کو بڑھتی ہوئی مہنگائی کے پیش نظر چائے میں چینی کم ڈالنے اور روٹی کم کھانے کا مشورہ دیا ہے۔ اب اس پر انہی اشرافیہ سے سوال ہے کہ کیا مہنگائی کے بڑھنے سے عوام کی تنخواہوں میں بھی اضافہ ممکن ہے یا نہیں۔؟ مشاہدے میں ہے کہ حکومتی سطح پر کفایت شعاری کے مشورے کبھی مہنگائی کا حل نہ ہوئے ہیں اور نہ ہو سکتے ہیں۔مہنگائی ایک سنجیدہ مسئلہ ہے حکومت کا کام ہے کہ وہ مہنگائی کے عفریت پر قابو پاتے ہوئے عام آدمی کی قوت خرید کو ذیادہ کرے۔ نیز سوشل پروٹیکشن کی سکیموں کا دائرہ کار بڑھائے۔ مارکیٹوں،بازاروں میں پرائس کنٹرول کمیٹیز کو فعال کردار ادا کرنے پر پابند کرے،تاکہ منافع خوروں اور کساد بازوں سے تلملا اٹھے ڈپریشن ذدہ غریب عوام الناس کو صحیح ’’تبدیلی‘‘ ریلیف فراہم ہوسکے۔
مرنا تو اس جہاں میں کوئی حادثہ نہیں
اس دورِ ناگوار میں جینا کمال ہے