ماسٹر فارمولے
فارمولہ لفظ لاطینی زبان سے آیا ہے جس کا مطلب ہے 'اصول' یا 'فریم ورک'۔ لہذا ، ایک فارمولہ پیٹرن اور قواعد کی ایک سیریز سے بنا ہے جس پر عمل کرنے سے کسی مسئلے کا حل منحصر ہوتا ہے.کئی بار مخصوص اور کنٹرول شدہ نتیجہ حاصل کرنے کے لئے بھی فارمولہ استعمال کیا جاتا ہے.
یہ ایک روایتی عملی طریقہ کار ہے جو کچھ علامتوں ، قواعد ، اقدامات یا اقدار کی بنیاد پر مسائل کو حل کرنے یا عملدرآمد کے عمل کی اجازت دیتا ہے..کچھ فارمولے منطقی ہوتے ہیں اور نسل بہ نسل تبرکات کی طرح سفر کرتے ہیں اور کچھ فارمولہ کریم کی طرح مصنوعی گورا پن حاصل کرنے کے لیے ایجاد کیے جاتے ہیں .کچھ فارمولے کام چلاؤ کی بنیاد پر کام میں لائے جاتے ہیں اور سب حقائق مسخ کر کے رکھ دیتے ہیں .ہر حکومت کے پاس عوام کو خواب دکھانے کا بھی ایک مستند فارمولہ ہوتا ہے . عام طور پر یہ خواب نعروں کی صورت دکھائے جاتے ہیں .عوام پر فرض ہے کہ وہ خواب ضرور دیکھیں . خواب نہ دیکھنے والوں کو پٹواری سمجھا جاتا ہے . گزری حکومتوں کے خواب جھوٹے کرنے کا بھی تیر بہدف فارمولہ ہے .یعنی موجودہ نعروں میں ایسی ہوا بھری جائے کہ ہمارے بچے 1100 میں سے 1100 نمبر لے کر بھی انھیں سمجھنے کا کوئی فارمولہ نہ بنا سکیں . حکومتی پالیسیوں کے کسی فارمولے میں ان خوابوں کی تعبیر شامل نہیں .پطرس بخاری کے الفاظ میں صرف نل لگائے گئے ہیں.آخر ایک دن آکسیجن اور ہائیڈروجن مل کر پانی بن جائے گا . یوں بھی قدرت کے کاموں میں کس کو دخل ہے . مخصوص سائنس کی دنیا سے لے کر معاشرتی تعلقات تک مختلف شعبوں میں فارمولے کچھ ایسی کثرت سے استعمال کیے جانے لگے ہیں جن سے فورا یقین ہو جاتا ہے کہ کامیابی دراصل فارمولہ کے ہی مساوی ہے . کھانے کے مصالحوں میں کچھ ایسا فارمولہ استعمال کیا جاتا ہے جس کی بنا پر ہر گھر تقریبا ان کا محتاج ہو چکا ہے .ساری ساری رات مدھم آنچ پر پکنے والی روایتی ڈشوں کو بھی یہ فارمولے کھا چکے ہیں .حسن و خوبصورتی کے لیے ابٹن اور ملتانی مٹی بھی ان فارمولوں کی بھینٹ چڑھ گئی ہے . جدید فارمولوں کے زاویے ریاضی کی کسی علامت سے میچ نہیں کرتے .عبادات کو بھی ہم نیت یا ارادے سے زیادہ نیکیوں کے فارمولے سے جوڑ کر تسکین پاتے ہیں .دس نیکیاں برابر ہیں پانی کا گلاس یہ فارمولے لگانے میں ہم اتنی مہارت رکھتے ہیں کہ کسی کو قدم اٹھاتا دیکھ کر ہی یہ اندازہ لگا لیتے ہیں کہ اس کی قبر میں کتنے بچھو پڑیں گے . کئی بار تو اپنی بات کی تصدیق اور فارمولے کی سچائی ثابت کرنے کے لیے مردہ لوگوں کی قبروں میں سانپ بچھو ڈالتے رہتے ہیں . ماسٹر پلان کی طرح ماسٹر فارمولے اور پلان بی کی طرح درجہ دوم کے فارمولے بھی ہماری زندگی کا جزو بن چکے ہیں .
اس مہنگائی کے ہاتھوں زخم خوردہ عوام روز ہر صبح دن گزارنے کے لیے کوئی فارمولا تلاش کرتی ہے لیکن اس کے حصے حسابی فارمولے کا مائنس ہی آتا ہے جس میں ٹیکس اور منی بجٹ کی صورت تو اضافہ ہوتا رہتا ہے لیکن سکون اور عزت نفس کو بہا کر لے جاتا ہے . ہر فائدہ میں.جمع کی علامت ارباب اختیار کو ہی فراہم کی جاتی ہے .حالیہ سرکار فارمولے لگانے کی ماہر ہے پہلے تبدیلی کا کلیہ ذہنوں میں ڈال کر گرہ لگا دی. اب مہنگائی کے نت نئے فارمولے بنا بنا کر عوام کو زچ کر دیا گیا ہے. عوام ورطہ حیرت میں ہیں کہ کوئی فارمولا ڈالر کی پہنچ تک کیوں نہیں پہنچا. پبلک اور پرائیویٹ سیکٹر پلاننگ میں بھی ایسے فارمولے رواج پا چکے ہیں جس میں کامیابی مساوی ہے خواص
اور دھتکار مساوی ہے عوام
زبان زد عام ہے .سائنس, ریاضی, ہندسی , جسمانی ، کیمیائی ، شماریاتی ہر عمل میں انسانی زندگی کا تنوع اور حساسیت بھی ان فارمولوں کی نذر ہو چکی ہے .. کیمسٹری کے ایسے فارمولے جو ایک ساتھ مل کر مرکب بناتے ہیں موجودہ دور میں ان.کے تجربات کا نتیجہ جلد بازی , ہوس , شر پسندی اور بے بسی ہے . نمبروں کی تقسیم نے وہ غضب ڈھایا ہے کہ ہمارے اداروں میں انسان بنانے یا عوام کی مشکلات سمجھنے کا کوئی فارمولہ نکل ہی نہیں سکا .موجودہ امتحانی نتائج میں نجانے کون سا فارمولہ لگایا گیا ہے کہ ان بچوں کو پڑھانے والے اساتذہ تک ششدر ہیں .ہرن کی چیخ کا عنوان غزل رکھا جا سکتا ہے لیکن انسانی چیخ و پکار کو عادت سمجھ کر نظر انداز کیے جانے کا رواج فروغ پا چکا ہے .اعزازی فارمولوں کے تحت پی ایچ .ڈی کی ڈگریاں اور حکومتی عہدے تقسیم کیے جاتے ہیں .عام طور پر یہ عہدے ایسے لوگوں کو ملتے ہیں جو ہر علامت میں خود کو ضرورت کے مساوی ثابت کرنا جانتے ہیں .انصاف کے راستے میں بھی کچھ ایسے فارمولے اڑتے پھرتے ہیں جو نہ صرف کارگر رہتے ہیں بلکہ قانون کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کا عمل بھی جانتے ہیں .ہمارے معاشرہ میں کوئی فارمولہ طے شدہ نہیں .ذہین قوم بوقت ضرورت کوئی نہ کوئی فارمولہ نکال ہی لیتی ہے. دو نمبر مال بنانے والے ایسا فارمولہ استعمال کرتے ہیں کہ نقل بمطابق اصل ثابت ہوتی ہے اور اصل تاجر کو اخبارات میں اشتہار دے کر اور اپنا مخصوص کوڈ بتا کر سچائی ثابت کرنا پڑتی ہے .افسوس بہت سے حقائق اور سچائیاں فارمولوں کی بھینٹ چڑھ جاتی ہیں .مائنس ون فارمولہ آدھا پاکستان کھا گیا لیکن ہر بار نئی علامات , نئی اختراعات اور نئے وعدوں کے سہارے تاریخ کا دھارا موڑنے میں کامیاب ہو جاتا ہے .فارمولہ کریم کی طرح یہ فارمولے گیدڑ کو شیر اور شیر کو بھیڑ ثابت کر سکتے ہیں لیکن انسان ان فارمولوں میں جتنی بھی مہارت حاصل کر لے الجبرا کی مساوات میں کہیں نہ کہیں مار کھا جاتا ہے .قدرت کا فارمولا خود کار ہے .
رہے نام اللہ کا