میرے مشفق ڈاکٹر اجمل نیازی
ڈاکٹر محمد اجمل خان نیازی داغ مفارقت دے گئے۔ وہ زندہ تھے تو زندگی جیسے چاروں طرف معصوم بچے کی طرح دھیمے دھیمے مسکراتی رہتی تھی اک موہوم سی امید تھی کہ وہ ہمارے درمیان ہیں وقت کے ساتھ ساتھ ٹھیک ہو جائیں گے۔ وہ ٹھیک ہوئے بھی محترم سعید آسی صاحب کی خواہش پرانہوں نے دو سے تین کالم لکھے بھی محترم مجید نظامی مرحوم جنہیں وہ اپنا پیرو مرشد جانتے تھے ان کے کہنے پر ہی انہوں نے نوائے وقت میں کالم نگاری شروع کی اور اسے آخری سانس تک نبھایا اور بہت لگن دلیری اور زندہ دلی سے حرمت قلم کا بیڑا اٹھائے رکھا
جو دل میں آتا بغیر کسی خوف وخطر کے لکھ دیتے ان کا کوئی کالم آپ کو بیجا تعریف اور خوشامد کے انداز میں نظر نہیں آئے گا ۔ہاں ہمیشہ امید کی بات کرتے تھے۔ ان کی بیماری کے دنوں میں بھی میں نے انہیں کبھی ناامید نہیں دیکھا کہتے تھے میں مکمل ٹھیک نہیں ہوں تم دعا کرو‘اور میں ہمیشہ کہتی تھی آپ کیلئے خودبخود ہی دعائیں دل سے نکلتی ہیں۔ ہر انسان کی کچھ نہ کچھ ایسی خوبیاں ہوتی ہیں جو آپ کو اس کا اسیر کر دیتی ہیں آپ اس کی شفقتوں عنائیات اور دلجوئی کو کبھی فراموش نہیں کر پاتے۔
میں نے ذاتی طور پہ انہیں ہمیشہ دوسروں کے لیے کشادہ دل پایا۔ عام لوگوں کے ساتھ وہ خاص مہربان ہو جایا کرتے تھے اگر کوئی عزت واحترام محبت وعقیدت میں ایک قدم آگے بڑھتا تو نیازی صاحب دس قدم مہربانی فرماتے اور اس شخص کے دل ودماغ پہ نقش ہو جاتے۔ ان کے ساتھ کئی بار سفر کرنے کی سعادت بھی نصیب ہوئی۔ وہ خود ڈرائیونگ نہیں کرتے تھے ۔دوران سفر جو لوگ انہیں پہچان جاتے اور سلام کرتے تو ڈاکٹر صاحب دونوں ہاتھ بلند کر کے سلام کا جواب دیتے ۔تو میں گاڑی میں پیچھے بیٹھی اس شخص کی عظمت کی دل وجان سے معترف ہوتی جاتی۔ میں ان کے ساتھ کبھی کبھی کسی محفل میں بھی شریک ہو جایا کرتی تھی۔ وہ بات کرتے تو جیسے لمحے ٹھہر جایا کرتے تھے ۔طویل سے طویل گفتگو میں بھی کبھی اکتاہٹ محسوس نہیں ہوا کرتی تھی بہت پیاری باتیں کرتے تھے۔ ہر کسی کو اہمیت دیتے تھے۔ وہ استاد تھے کامیاب استاد تھے انکے شاگرد آج بڑے بڑے عہدوں پہ فائز ہیں اور ان کی دل وجان سے عزت کرتے ہیں۔ وہ حمید نظامی چیئر پہ بھی فائز رہے جو کہ پنجاب یونیورسٹی میں قائم تھی ۔اس دوران انہوں نے اسی حوالے سے دو خوبصورت کتابیں شائع کیں۔ ڈاکٹر اجمل نیازی ایک عہد تھے ایک زمانہ جو ہم میں آباد تھا وہ ختم ہوا ہم خوش نصیب لوگ تھے ہمیں ان کی قربتیں نصیب ہوئیں میں نے جب پہلے پہل لکھنا شروع کیا لکھنے کا شوق تو کالج لائف ہی سے تھا مگر اس وقت اتنی پہنچ نہیں تھی کہ شاعروں ادیبوں اور اخبارات تک رسائی حاصل ہو سکے ۔ پھر شادی کے بعد دس سال تک بچوں کی پرورش میں مصروفیت رہی۔ جب بچے سکول جانے لگے تو میں نے باقاعدہ بکس پبلش کروانے اور کالم نگاری کا سلسلہ شروع کر دیا ۔
ڈاکٹر صاحب نے جو میرے لیے کہا وہ حرف حرف میرے دل پہ نقش ہے ۔ ,,تمھارے اندر جو بیقراری ہے تم ضرور کچھ کر سکتی ہو ‘‘
لکھنا کبھی نہ چھوڑنا۔ بس لکھتی رہو جو دل میں آئے لکھتی رہو۔ اور کسی سے نہ ڈرنا ہے نہ دبنا ہے‘‘
ڈاکٹر صاحب کی یادیں ایسی گہری ہیں ایسی بیمثال اور پائیدار ہیں کہ آخری سانسوں تک نہیں بھول پائیں گی ۔میں ان کی بیماری کے دوران ان کی عیادت کو اکثر جایا کرتی تھی۔ وہ بیشک چپ لیٹے رہتے‘ میں ان کے پاس بیھٹی چھوٹی چھوٹی باتیں کرتی رہتی تھی اور مجھے پتہ تھا وہ ان لمحوں میں خوش ہیں ۔
ڈاکٹر صاحب کے چہرے کو دیکھ کے کبھی نہیں لگتا تھا وہ بیمار ہیں۔ہمیشہ چہرے پہ تازگی رہتی تھی۔ میں خاص کر آنٹی رفعت کی تابعداری خدمت گزاری کو یہاں بے حساب سراہنا چاہتی ہوں۔ اس خاتون نے روپے پیسے کی پرواہ کیے بغیر شہر کے بڑے سے بڑے ہاسپیٹل میں ڈاکٹر صاحب کا علاج کروایا ۔ان دو سالوں میں اپنا تن من دھن سب کچھ ڈاکٹر صاحب پہ وار دیا۔ تھا خدمت میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ لگتا نہیں کہ یہ کسی بیمار کا کمرہ ہے وہاں سے خوشبوئیں آتی تھیں ۔ کبھی بیزاری کا احساس نہیں ہوتا
اس گھر میں سب سے ایکٹو سلمان ہے اس پہ بہت ذمہ داری پڑ گئی ہے پیارے بھائی کے لیے دل وجان سے دعائیں ۔ اسے دیکھ کے ڈاکٹر صاحب یاد آتے ہیں وہ لڑکا ان دو سالوں کے درمیان جس مشقت سے گزرا ہے وہ اسے شائد کبھی نہ بھولے لیکن اس مشقت میں محبت شامل تھی اس لیے اس کے چہرے پہ ہمیشہ تازگی رہی۔ ڈاکٹر اجمل نیازی کو سابق صدر آصف زرداری کے دور میں ستارہ امتیاز دیا گیا۔ وہ محترمہ بینظیر بھٹو کو بہت بڑا لیڈر سمجھتے تھے ۔
ڈاکٹر صاحب‘ آپ مرد درویش تھے دنیاوی جاہ و جلال کے دلدادہ نہیں تھے ۔طبیعت میں اتنی سادگی کہ خوشگوار حیرتیں دل میں اترنے لگتیں۔ آپ کی کس کس بات کو یاد کریں اور کس کس ادا کو بھلائیں ڈاکٹر صاحب سے آخری ملاقات ام نصرت فاؤنڈیشن میں ہوئی جہاں مائرہ خان اور عمیر بھائی نے بہت محبت سے ان کی سالگرہ کی تقریب کا اہتمام کیا ہوا تھا خالد اعجاز مفتی صاحب نے ان کے لیے خصوصی دعائے صحت کی اپیل کی باقاعدہ دعا کروائی گئی وہاں ان سے آخری بات یہ ہوئی ۔ڈاکٹر صاحب ہم سب آپ کے لیے یہاں آئے ہیں۔ کچھ تو کہیں کوئی بات کریں تو ڈاکٹر صاحب نے بڑی آہستگی سے کہا جیسے کوئی معصوم بچہ گویا ہو۔ ,,لیکن میں ٹھیک نہیں ہوں‘‘اور وہ کچھ دیر بعد گھر چلے گئے ۔اس زندگی کا سب سے بڑا المیہ موت ہے ہمارے پیارے ہم سے بچھڑ جاتے ہیں ۔ہم اپنے ہاتھوں سے انہیں سپرد خاک کر آتے ہیں جانے والے کبھی دیکھتے ہی نہیں کہ ان کے جانے سے شہر دل ویران ہو جائیں گے کیسے ان کے اپنے اداسی کے عالم میں زندگی گزاریں گے ۔ڈاکٹر صاحب اللہ پاک آپ کی اگلی منزلیں آسان کریں آپ کو نبی پاک صلی علیہ وآلہ وسلم کے غلاموں میں شامل کریں ان کی شفاعت نصیب فرمائیں آمین