قومی سلامتی کمیٹی اجلاس‘ سول ملٹری میں تقسیم نہ ہونے کا پیغام
اسلام آباد (سلمان مسعود/ دی نیشن رپورٹ) کالعدم تحریک لبیک کے احتجاج کے حوالے سے ہونیوالے قومی سلامتی کمیٹی اجلاس سے متعلق یہ بات سامنے آئی ہے کہ میڈیا مالکان‘ ٹاک شوز ہوسٹس اور صحافیوں کے ایک مخصوص گروپ کو دو اہم پیغامات دیئے گئے۔ ایک تو یہ کہ مسلح گروپوں کی ریاست کی رٹ کو چیلنج کرنے کی اجازت نہیں دی جائیگی۔ دوسرا یہ کہ ملک میں سول اور ملٹری میں کوئی تقسیم نہیں ہے۔ سکیورٹی افسر کے مطابق ان افواہوں پر کہ جاری احتجاج کا مقصد اسٹیبلشمنٹ کی جانب سے موجودہ سیاسی حکومت کو عدم استحکام سے دوچار کرنا ہے۔ پر صرف ہنسا ہی جا سکتا ہے۔ مزید بتایا کہ تحریک لبیک مذہب اور جذبیاتی نعروں کو عوام کو اکسانے کیلئے استعمال کر رہی ہے۔ حالانکہ یہ تنظیم تشدد اور ریاست کو یرغمال بنانے کے ذریعے سے اپنے سیاسی عزائم رپ کاربند ہے اور اسکی قیادت بامعنی مذاکرات کی طرف نہیں آنا چاہتی بلکہ طاقت کے استعمال کے ذریعے اپنے مطالبات ٹھونسنا چاہتی ہے۔ ریاست ایسی صورتحال کی اجازت نہیں دے سکتی جس میں ایک گروپ مسلسل ریاست کی گردن دبوچ کر اپنے مطالبات پیش کرتا رہے۔ احتجاج میں کارکنوں کی بہت بڑی تعداد شامل ہے اور اس کی وجہ سے کئی شہروں میں زندگی مفلوج ہو گئی ہے حتیٰ کہ طورخم کے راستے افغانستان کیلئے بھی خوراک کے سامان کی فراہمی تک معطل ہو کر رہ گئی ہے۔ 4 پولیس اہلکار جان کی بازی ہار چکے بجکہ 114 زخمی ہو چکے ہیں۔ سکیورٹی افسر نے تسلیم کیا کہ ضلعی حکام اور پولیس ایڈمنسٹریٹر اتنے بڑے ہجوم کو کنٹرول نہیں کر سکے۔ ماضی میں بھی اس تنظیم کی پیشرفت نہیں روکی جا سکی اور بار بھی صورتحال مختلف نہیں بلکہ اب پنجاب رینجرز کیساتھ آمنے سامنے تصادم کی صورتحال بن رہی ہے۔ نیم فوجی دستوں نے پوزیشن سنبھال لی ہے اور تنظیم کے کارکنوں کو وزیرآ باد سے آگے جانے نہیں دے گی۔ حکام کا کہنا ہے کہ اگر ہجوم میں سے کسی نے گولی چلائی تو رینجرز کے پاس اس کا جواب گولی سے دینے کے سوا کوئی چارہ نہیں ہو گا۔ سینئر سکیورٹی افسر کے مطابق جب فوج اور ہجوم آمنے سامنے آ جائیں تو سب کچھ تباہ ہو جاتا ہے۔ انہوں نے اس بات پر تشویش بھی ظاہر کی ہے کہ صورتحال کا فائدہ اٹھا کر کوئی بھی دشمن ایجنسیاں خرابی پیدا کر سکتی ہیں۔ اس تمام سنگین ترین صورتحال کے پیش نظر بھی حکومت نے مذاکرات کے دروازے کھلے رکھے ہیں۔ میں انہیں آخری موقع دے رہا ہوں۔ تنظیم کے جو مطالبات جائز اور آئینی ہونگے ان پر بات ہو سکتی ہے ورنہ کریک ڈاؤن آخری اقدام ہو گا۔