طالبان حکومت کا قیام ، بھارتی مشکلات انیہا پسند ہندوئوں کی بے چینی میں اضا فہ
تجزیہ: محمد اکرم چودھری
افغانستان میں طالبان حکومت کے قیام سے بھارت کی مشکلات میں اضافہ ہو رہا ہے۔ بھارت کے انتہا پسند ہندوؤں کو طالبان حکومت ہضم نہیں ہو رہی۔ ہر گذرتے دن کے ساتھ انتہا پسند ہندوؤں کی بے چینی میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ افغانستان میں طالبان کی حکومت قائم ہونے کے بعد بھارت نے وہاں اپنا سفارتی مشن بند کرنے کا فیصلہ کرتے ہوئے سفارتی عملے کو واپس بلا لیا تھا۔ سفارتی مشن بند کرنے کا فیصلہ یہ ثابت کرتا ہے کہ بھارت کسی بھی طور طالبان کے ساتھ کام نہیں کرنا چاہتا۔ اس کی ایک بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ طالبان نے بھارت کو ہمسایہ ممالک کے معاملات میں مداخلت کے منصوبوں پر ساتھ دینے سے انکار کر دیا تھا۔ اشرف غنی کی حکومت میں بھارت افغان سرزمین کو پاکستان کے خلاف استعمال کر رہا تھا۔ طالبان نے یہ سلسلہ جاری رکھنے سے انکار کیا تو بھارت کو باامر مجبوری سفارتی مشن بھی بند کرنا پڑا۔ اب یہ بے چینی اس حد تک بڑھ چکی ہے کہ نریندرا مودی کی حکومت میں انتہا پسند ہندو سیاست دانوں نے افغانستان کو ائیر سٹرائیک کی دھمکیاں دینا شروع کر دی ہیں۔ بھارتی ریاست اتر پردیش کے ہندو انتہا پسند وزیراعلیٰ یوگی ادتیا ناتھ نے افغانستان پر ائیر سٹرائیک کی دھمکی دی ہے۔ یوگی ادتیا ناتھ نے لکھنو میں سیاسی مخالفین کو تنقید کا نشانہ بناتے بناتے افغان طالبان کو حملے کی دھمکی بھی دے ڈالی۔ یہ سوچ بے چینی کی عکاسی کرتی ہے۔ بھارت میں بی جے پی کی حکومت میں ہندوتوا کے فلسفے کی وجہ سے وہاں اندرونی طور پر بھی ہندوؤں کے علاوہ دیگر مذاہب سے تعلق رکھنے والے افراد کو مسائل کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے لیکن یوگی ادتیا ناتھ کا حالیہ بیان انتہا پسندی کی سرکاری پالیسی کا عکاس ہے۔ نریندرا مودی کی حکومت اس لیے بھی بے چین ہے کیونکہ طالبان کے چین کے ساتھ تجارتی روابط بحال ہوئے ہیں۔ چین اور افغانستان کے درمیان فضائی راستے سے تجارت بحال ہونے کے بعد بڑی تعداد میں افغانستان سے چلغوزے چین برآمد کئے گئے ہیں۔ افغانستان سے پینتالیس ٹن چلغوزے چین گئے ہیں تو چین نے بھی افغانستان کی مدد شروع کر دی ہے۔ چین نے انسانی ہمدردی کی بنیاد پر افغان عوام کیلئے طبی سامان، کمبل، ادویات اور دیگر ضروری پر مشتمل سامان بھیجا ہے۔ یہ صورت حال بھارت کے لیے سب سے زیادہ پریشان کن ہے کیونکہ ایک طرف تو طالبان حکومت قائم ہونے سے بھارتی سرمایہ کاری ڈوب گئی ہے تو دوسری طرف طالبان کی چین کے ساتھ تجارتی سرگرمیاں شروع ہو چکی ہیں۔ ہمسایہ ممالک اور دنیا کے اہم ممالک طالبان کے ساتھ تعاون کریں، معاہدوں کی پاسداری کریں اور ان کے اندرونی معاملات میں مداخلت سے گریز کریں تو طالبان بہتر انداز میں آگے بڑھ سکتے ہیں۔ انہیں عوام سے کیے گئے وعدوں کو پروا کرنے کے لیے صرف امداد نہیں بلکہ تجارت کی ضرورت ہے۔