کیا وزیراعظم اندرونی و بیرونی دبائو کو قبول کر لیں گے؟
حلقہ 133لاہور میں ضمنی الیکشن میں مسلم لیگ ن کی امیدوار یکطرفہ طور پر جیتی ہوئی نظر آ رہی ہیں۔ ان کا مقابلہ امکانی طور پر تحریک انصاف سے نہیں ہوگا کیونکہ اس حلقے سے پی ٹی آئی کے نامزد امیدوار جمشید اقبال چیمہ کے کاغذاتِ نامزدگی ایک معمولی سی کوتاہی سے مسترد ہو چکے ہیں۔ ان کو نامزد کرنے والے دونوں لوگوں کا تعلق اس حلقے سے نہیں ہے۔ نہ صرف جمشید اقبال چیمہ کے کاغذات نامزدگی ریٹرننگ افسر نے مسترد کیے ہیں بلکہ ان کی متبادل امیدوار بیگم مسرت جمشید اقبال چیمہ کے کاغذات بھی اسی وجہ سے مسترد ہوئے ہیں۔ اس حلقے سے متوفی پرویز ملک کی بیوہ شائستہ پرویز کو مسلم لیگ ن کی طرف سے شکست کے خوف کے باعث ٹکٹ دیا گیا ہے۔ حالانکہ اس حلقے میں مسلم لیگ ن کافی مضبوط ہے لیکن سیالکوٹ میں پی ٹی آئی کے سلیم بریار نے طارق سبحانی کو جس طرح ہرایا مسلم لیگ ن کی قیادت کو خطرہ تھا کہ یہاں بھی ویسا ہی نہ ہو۔ پارلیمنٹ میں اصولی طور پر ایسے لوگوں کو لے جانا ہوتا ہے جو قانون سازی میں مہارت رکھتے ہوں۔ شائستہ پرویز ملک تو پہلے ہی ایم این اے ہیں۔ ان کو ایم این اے کی سیٹ سے دستبردار کرا کے ضمنی الیکشن میں دھکیل دیا گیا اور وہ ابھی عدت میں بھی ہیں۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ مسلم لیگ ن کی قیادت اس حلقے سے ہمدردی کا ووٹ حاصل کرکے جیت کو یقینی بنانا چاہتی ہے۔ قانونی طور پر الیکشن میں کسی بھی امیدوار کے تجویز کنندہ کی تعداد دو ہوتی ہے اور دونوں کا تعلق اس حلقے سے ہونا ضروری ہے جس میں الیکشن ہو رہا ہو۔ طرفہ تماشہ ہے کہ پرویز ملک کا اس حلقے سے تعلق نہیں ہے۔ جمشید اقبال چیمہ بھی اس حلقے کے رہائشی نہیں ہیں اس پر مضحکہ خیزی یہ رہی کہ تجویز کنندگان بھی ان کو اس حلقے سے نہ مل سکے اور کاغذات مسترد کرا بیٹھے۔ پرویز ملک کے مقابلے میں اس حلقے سے اعجاز چودھری ہارے تھے وہ بھی اس حلقے کے رہائشی نہیں تھے۔ کیا یہ حلقہ سیاسی طور پر اتنا بانجھ ہے کہ بڑی پارٹیوں کو تین لاکھ سے زائد ووٹران میں سے ایک بھی امیدوا رنہیں ملتا۔پی ٹی آئی کے معاملات اعجاز چودھری اور محمود الرشید کے پاس ہیں۔ اعجاز چودھری ہارے تو ان کو سینیٹر بنا دیا گیا۔ محمود الرشید صوبائی کابینہ میں ہیں۔دونوں کا تعلق جماعت اسلامی سے رہا ہے۔ یہ جماعت ترقی اور تبدیلی کی سوچ سے تہی ہے۔ یہ لوگ جماعت اسلامی سے تو پی ٹی آئی میں آئے مگر اپنی سوچ کو پس پشت ڈالانہ جہاں سے آئے تھے وہاں چھوڑا۔ اس کو ساتھ ساتھ لیے پھرتے ہیں۔ اور اسی پر پوری پارٹی کو چلانے کیلئے سرگرم نظر آتے ہیں۔ یہ لوگ الیکشن کوئی پہلی بار لڑ رہے تھے۔ تجویز کنندہ کا کسے علم نہیں کہ وہ اسی حلقے سے ہونا چاہیے۔ ایسے لوگ پارٹی کو دانستہ ڈبو رہے ہیں پارٹی ڈوبے گی تو وہیں واپس چلے جائینگے جہاں سے آئے ہیں۔عمران خان کو اپنی پارٹی کے لوگوں پر اعتماد کرنا ہوگا۔ عوام نے اعتماد پی ٹی آئی پر کیا آپ نے زمامِ اقتدارشیخ رشید جیسے لوگوں کے رحم و کرم پر چھوڑ دی۔عمران خان کا اقوام متحدہ میں خطاب کے بعد امیج بہت بہتر ہوا ہے۔ سعودی عرب میں بڑی پذیرائی ہوئی ہے، ترکی اور ملائشیاجیسے ممالک میں عمران کا نام گونج رہا ہے۔ عالمی سطح پر عمران خان کو سربلندی ہوئی ہے۔ افغانستان میں کردار نے عمران خان کو عالمی لیڈروں کی صف میں کھڑا کر دیا ہے۔ اب انہیں ملک کی اندرونی صورت حال اور خصوصی طور پر سیاست میں اپنا کردار ادا کرکے پارٹی کو مضبوط بنانا ہے ورنہ آئندہ الیکشن میں حالت قابل رحم ہو سکتی ہے۔ اپنے پرانے ساتھیوں کو فراموش نہ کریں یہ بھی سوچیں کہ ڈاکٹر طاہرالقادری سے دوری کیوں اختیار کی ان کا موازنہ ذرا اپنے اردگرد جمع ہونے والے شیخ رشید، اعجاز چودھری، فواد اور اس قبیل کے دوسرے لیڈروں سے کریں۔ عمران خان بطور وزیراعظم اپنے عہدہ سے کتنا انصاف کر پائے ہیں اسکے تجزیے کیلئے وقت درکار ہوگا مگر کرونا کی وجہ سے معاشی کساد بازاری سے جو حالت ملک کی سامنے آئی ہے وہ کسی سے ڈھکی چھپی نہیں۔دنیا بھر میں کرونا کی آفت کے بعد زندگی پھر سے شروع ہوئے ابھی کچھ روز ہی ہوئے ہیںیا یوں کہیے کہ بیس سے تیس فیصد لوگ ابھی اپنی نارمل زندگی میں واپس نہیں آئے۔اور پاکستان میں اکتوبر کا پورا مہینہ ہڑتالوں اور احتجاج وغیرہ کی نذر ہو گیا۔ آج حکومت اور کالعدم تحریک کی طرف سے باضابطہ اعلان کیا گیا ہے کہ حکومت اور احتجاجی دھڑے کے درمیان ایک معاہدہ تشکیل پا چکا ہے مگر یہ بات بھی حقیقت ہے کہ ہمارے ملک کی لڑکھڑاتی معیشت کو تین سو ارب سے زائد کا نقصان ان ہڑتالوں کی وجہ سے ہوا ۔ تین سو ارب روپے کا جھٹکا ہماری کمزور معیشت کیلئے ایک بہت بڑا نقصان ہے۔ہماری اپوزیشن اور حکومت تدبر سے کام لے کر اس قسم کے معاشی جھٹکوں سے بچ سکتی ہیں۔