• news

حکومتی فیصلوں سے پر پاکستانی کی زندگی مشکل ہوتی جا رہی ہے

تجزیہ: محمد اکرم چودھری
حکومت ملک کو1821ء میں واپس لے کر جا رہی ہے۔ حکومتی فیصلوں کی وجہ سے ہر پاکستانی کے لیے زندگی مشکل تر ہوتی جا رہی ہے۔ حکومت کے پاس عام آدمی کی زندگی آسان بنانے کے لیے کوئی پلان نہیں ہے۔ بدقسمتی ہے کہ وزیراعظم عمران خان بھی مہنگائی کے معاملے میں پاکستان کا موازنہ ان ممالک سے کر رہے ہیں جہاں بیروزگاروں کی دیکھ بھال بھی حکومت کرتی ہے، مشکل وقت میں زندگی کی بنیادی ضروریات کا خیال ریاست رکھتی ہے۔ بچوں کی دیکھ بھال کے لیے بھی حکومت کام کر رہی ہوتی ہے جبکہ پاکستان میں ایسا کچھ نہیں ہے۔ ہر شخص یہ ذمہ داریاں خود اٹھاتا ہے۔ فی کس آمدن خطرناک حد تک نیچے ہے، لوگوں کے پاس کھانے پینے کے لیے کچھ نہیں۔ بڑے شہروں میں ہر دوسری جگہ لوگ کھانا تقسیم کرتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں۔ امریکہ اور یورپ کی مثالیں دیتے ہوئے وہاں کے حالات، وسائل، سہولیات اور ریاست کی ذمہ داریوں کا موازنہ بھی کریں تاکہ لوگوں کو اندازہ ہو سکے کہ اس موازنے کے نام پر ان کے ساتھ کیا کھیل کھیلا جا رہا ہے۔ وزیراعظم کہتے ہیں پاکستان میں مہنگائی نو فیصد ہے۔ ترکی میں انیس فیصد اور ان کی کرنسی پینتیس فیصد گری ہے، امریکہ اور یورپ میں دو ہزار آٹھ کے بعد سب سے زیادہ مہنگائی ہوئی ہے، چین میں چھبیس سال اور جرمنی میں پچاس سال بعد سب سے زیادہ مہنگائی ہوئی ہے۔ وزیراعظم اپنے شہریوں کو امریکہ اور یورپ کے شہریوں جیسی سہولیات فراہم کر کے جتنی مہنگائی وہاں ہوئی ہے یہاں کر دیں۔ کیا حکومت صرف موازنے کرنے کے لیے آئی ہے۔ کیا ہمارے محترم وزیراعظم نہیں جانتے کہ ملک میں کتنے فیصد لوگ خط غربت سے نیچے زندگی گذار رہے ہیں۔ اشیاء خوردونوش کی قیمتوں میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ بجلی مہنگی، پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ، ادویات مہنگی، گیس کم ہو جائے گی پھر حکومت کیا کر رہی ہے۔ چند دن پہلے لکھا تھا کہ آئندہ چند ہفتوں میں ایک کلو چینی کی قیمت 140سے150 روپے تک پہنچ جائے گی۔ حکومت نے ہفتوں کا کام دنوں میں کر دیا ہے اور ملک کے کئی بڑے شہروں میں حکومت کی طرف سے چینی کی قیمت مندرجہ بالا ریٹ پر مقرر ہو چکی ہے۔ سندھ میں کئی شوگر ملیں حکومت کی جانب سے گنے کی قیمت کے اعلان کا انتظار کرنے کی وجہ سے ملیں چلانے کے قابل نہیں ہیں۔ اس سلسلے میں پنجاب کے فیصلے کے بعد سندھ ہر سال گنے کی قیمت کا اعلان کرتا تھا۔ اس سال تاہم پنجاب ابھی تک گنے کی قیمت کا اعلان نہیں کر سکا۔ پنجاب حکومت کے ایک سینئر عہدیدار نے بتایا ہے کہ پنجاب حکومت گنے کی قیمت کا اعلان 28 اکتوبر تک کرے گی۔ شوگر ملز ایسوسی ایشن پنجاب زون کے ذرائع نے رابطہ کرنے پر بتایا ہے کہ یہ تاثر غلط ہے کہ چینی کی قلت ہے۔ اس وقت شوگر ملوں میں 120000 ٹن سٹاک موجود ہے (بشمول فروخت کیا گیا لیکن نہ اٹھایا گیا)، 29000 ٹن ڈسٹرکٹ ایڈمن گودام میں درآمد کیا گیا اور 30000 ٹن یوٹیلٹی سٹورز کے گوداموں میں موجود ہے۔ اس سے کل 179000 ٹن بنتا ہے۔ اسی طرح دبئی سے پاکستان مزید 90000 ٹن چینی پہنچ رہی ہے۔ عمران خان کے پاس یہ اعداد و شمار پہنچیں تو سنیں ان پر غور کرنا چاہیے۔ حکومت ہر وقت مصنوعی مہنگائی کا شور مچاتی ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ حکومت کے غلط فیصلے ملک کو دو سو سال پیچھے لے جائیں گے جہاں نہ گیس ہو گی، نہ پانی ہو گا نہ بجلی ہو گی اور اسے پتھر کا دور کہا جاتا ہے۔

ای پیپر-دی نیشن