ڈپٹی گور نر سٹیٹ بنک کا روپے کے اتار چڑ ھا ئو میں مدا غلت کا اعتراف
اسلام آباد (نمائندہ خصوصی) ڈپٹی گورنر سٹیٹ بینک نے روپے کی قدر میں اتار چڑھاؤ میں مداخلت کا اعتراف کرتے ہوئے کہا ہے کہ پوری دنیا میں مرکزی بینکس مداخلت کرتے ہیں۔ مارکیٹ میں طلب و رسد ایکس چینج ریٹ کا تعین کرتا ہے۔ سینیٹر طلحہ محمود کی زیر صدارت سینٹ کی قائمہ کمیٹی خزانہ کے اجلاس کو ڈپٹی گورنر سٹیٹ بینک نے روپے کی قدر میں کمی اور مہنگائی پر بریفنگ دیتے ہوئے کہا کہ ایکسچینج ریٹ کی حرکت کا مہنگائی پر اثر پڑتا ہے، ایکسچینج ریٹ کا اثر اس وقت مہنگائی پر نظر آتا ہے، اس وقت خوراک اور توانائی کی مہنگائی پوری دنیا میں ہے۔ چیئرمین کمیٹی نے کہا کہ 6.5 ملین ڈالر لاہور میں ایک شخص سے پکڑے گئے ہیں، ڈالر افغانستان سمگل ہورہا ہے جس سے روپے کی قدر میں کمی ہوئی۔ ڈپٹی گورنر سٹیٹ نے چیئرمین کمیٹی کی بات سے اتفاق کیا۔ چیئرمین کمیٹی نے کہا کہ 23 بار عالمی مالیاتی ادارے (آئی ایم ایف) کے پاس جانے کے باوجود پاکستان گرے لسٹ میں ہے۔ مہنگائی کے باعث پاکستان کے عوام کی چیخیں نکل گئی ہیں۔ سینیٹر شیری رحمان نے کہاکہ ڈالر کی اڑان سے فائدہ ہونے کی باتیں درست نہیں ہے۔ گورنر سٹیٹ بینک کا بیان حقائق کے برعکس ہے۔ آج روپیہ ٹکے سے بھی آدھا ہوگیا ہے۔ چیئرمین کمیٹی نے کہاکہ جو بیان گورنر سٹیٹ بینک نے دیا اس کا کیا مقصد تھا؟۔ حکومت کے غیر ذمہ دار بیانات کا عوام پر اثر پڑتا ہے۔ گورنر سٹیٹ بینک کوئی سیاسی عہدہ نہیں، ان کو سیاسی بیان نہیں دینے چاہیے۔ سینیٹر انوار الحق نے کہا کہ انہیں افسوس ہورہا ہے کہ گورنر سٹیٹ بینک نے ایسا بے تکا بیان دیا۔ ایسے بیان کا سٹیٹ بینک کے لوگ دفاع کررہے ہیں۔ روپے کے اتار چڑھاؤ پر قابو پانا سٹیٹ بینک کی ذمہ داری ہے۔ جب سے گورنر سٹیٹ بینک آئے ہیں روپے کی قدر میں بہت بڑی کمی آئی۔ سینیٹر مصدق ملک نے کہا کیا سٹیٹ بینک نے پچھلے تین سال میں ڈالر کی قیمت کے حوالے کوئی مداخلت نہیں کی۔ سینیٹر ولید اقبال نے بھی گورنر سٹیٹ بینک کے بیان کو حقائق کے منافی قرار دیا۔ سینیٹر کامل علی نے کہاکہ سٹیٹ بینک کیسے مداخلت کرتی ہے؟ ہمیں بتایا جائے۔ ڈالر 153 سے 175 پر چلا گیا۔ سٹیٹ بینک نے مداخلت کیوں نہیں کی۔ سینیٹر فیصل سبزواری نے کہاکہ جب میکنزم ہے تو پھر بتایا جائے کہ کس وقت مداخلت کی جاتی ہے۔ سینیٹر کامل علی آغا نے کہا کہ اشیاء ضروریہ کی قیمتوں میں ایک دفعہ اضافہ ہوجائے تو پھر کمی نہیں ہوتی۔ اسحاق ڈار کو اسحاق ڈالر کہتے تھے کہ وہ گیمبلنگ کرتے تھے۔ آج تو 24 دفعہ گیمبلنگ ہوئی ہے اور کوئی پوچھتا نہیں ہے۔