بھارت تاریخ کا سبق نہ بھولے
لگتا ہے بھارتی ریاست اترپردیش وزیر اعلیٰ آدتیہ یوگی کو تاریخ سے کچھ زیادہ شغف نہیں ہے۔ گیروی رنگ کا روایتی ہندوانہ لباس پہنے یوگی کہلانے والا یہ فراڈیہ اگر پڑھا لکھا ہوتا تو اسے معلوم ہوتا کہ وہ جس افغانستان پر فضائی بمباری کی بات کر رہا ہے۔ وہ گزشتہ ایک ہزار سال سے بنا کسی طیارے ، ٹینک کے میزائل اور جدیدہتھیاروں کے کئی مرتبہ گھڑسوار اور پیدل مٹھی بھر سپاہیوں کے ساتھ بھارت کو روند چکا ہے۔ محمود غزنوی سے لیکر احمدشاہ ابدالی تک افغانستان سے آنے والے لشکروں نے راس کماری سے لے کر بنگال تک دہلی سے لے کر کرناٹک تک کو فتح کیا اور یہاں اپنی حکومت قائم کی۔ خاندان غزنوی ہو یا لودھی ، غلاماں ہوں یا خلجی، تغلق ہں غوری یا مغل یہ سینکڑوں برس ہندوستان کے فاتح اور حکمران رہے۔
اگر آدتیہ یوگی اس تاریخی حقیقت سے آگاہ ہوتا تو کبھی ایسی بڑ نہ مارتا جس کے جواب میں شرمندگی کے سوا کچھ ہاتھ نہیں آنا۔ آدتیہ یوگی کا سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ اس بدبخت شخص کو مسلمانوں سے اسلام سے نفرت ہے۔ یہ واقعی بہت بڑی بات ہے کہ دہلی ، قنوج ، آگرہ ، ڈھاکہ ، کلکتہ ، بہار، حیدر آباد ، لکھنو، بنارس ، تلنگانہ ، کیرالہ اوڑیسہ تک پھیلی کسی بھی ہندو ریاست میں یا ان کے مہاراجوں میں اتنی شکتی نہیں تھی کہ وہ اپنے ہی دیس میں اپنے ہی گھر میں رہتے ہوئے ہزاروں میل دور افغانستان سے آنے والے ان مٹھی بھر مسلانوں کا مقابلہ کر کے انہیں پیوندخاک کر دیتے۔الٹا لاکھوں کے لشکر، ہاتھی گھوڑوں ، اونٹوں کے باوجودیہ ہندوستانی ریاستیں ہر بار مسلمانوں کے حملے میں کاغذ کی نائو کی طرح برساتی پانی میں بہہ جاتیں۔ لاکھوں فوجی مل کر بھی مٹھی بھر چند ہزار مسلمانوں کو روک نہ سکے اور ان فاتح مسلمانوں نے صدیوں ہندوستان پر حکومت کی۔ یوگی ڈھونگی شایدبھول رہا ہے کہ مرہٹوں جن کی طاقت پر ہندوستانیوں کو بہت گھمنڈتھا وہ بھی بار بار زیر ہوئے۔ چھپ کر مسلم حکمرانوں پر حملے کرتے رہے مگر انہیں بھی پورے ہندوستان پر کبھی حکومت کرنا نصیب نہیں ہوئی۔ وہ ڈاکوئوں کی طرح آتے اور چوروں کی طرح بھاگ جاتے رہے۔ حتیٰ کہ پانی پت کے میدان میں لاکھوں مراٹھے گاجر مولی کی طرح کاٹ کر احمد شاہ ابدالی نے مراٹھا سامراج کا خواب چکنا چور کر دیا۔ کیا یہ سب حقائق صرف فسانے ہیں ۔ کیا یو گی ڈھونگی نے کبھی تاریخ نہیں پڑھی۔ اگر پڑھی ہوتی تو ضرور اس سے سبق سیکھتے۔ مگر یہ مکار شخص صرف اسلام دشمنی میں بھارت میں ہندو مسلم فسادات کروا کر اپنی مکروہ خواہشات کی تسکین چاہتا ہے۔
آج بھارت میں22 کروڑ کے لگ بھگ مسلمان آباد ہیں۔ یہ سب غیر ملکی فاتحین کے ساتھ نہیں آئے۔ مسلم فاتحین کا کوئی بھی لشکر 20 ہزار تا 50 ہزار سے زیادہ نہیںتھا جو ہندوستان پر حملہ آور ہوا۔ اکثر فوجی بھی بڑی تعداد میں واپس چلے جاتے تھے۔ مگر یہ مسلم صوفیا اور عام مسلمانوں کا حسن اخلاق اور اسلام کی روحانی کشش اور برتری تھی کہ اس نے یہاں کے سماج کو متاثر کیا۔ لاکھوں ہندوئوں نے ہنسی خوشی اپنی مرضی سے اسلام قبول کیا۔ اگر ایسا نہ ہوتا تو انگریزوں کے دور میں شدھی اور سنگٹھن جیسی تحریکوں نے جن کا مقصد ہندوستانیوں کو واپس اپنے پرانے مذہب پر لانا تھا ایک فیصدہی کامیاب ہوتیں۔ مگر تاریخ گواہ ہے کہ ایسا کچھ بھی نہیں۔ مسلمانوںکو ہندو بنانے کی تحریکیں پہلے بھی ناکام رہیں آج بھی ہیں اور آئندہ بھی رہیں گی۔
ہندوستان نے پاکستان مخالفت کی وجہ سے افغانستان کو خودسپورٹ کیا ہر جگہ اس کی مددکی۔ وہاں پاکستان مخالف عناصر کی مالی امداد کر کے انہیں خوب پالا پوسا مگر جب سے افغان طالبان نے حکومت سنبھالی ہے۔ بھارت کی ساری سرمایہ کاری نالی میں بہہ گئی ہے۔ اب اسے خطرہ ہے کہ اگر طالبان حکومت افغانستان میں مضبوط ہوئی تو لامحالہ اس کا اثر مقبوضہ کشمیر میں جاری مسلمانوں کی تحریک آزادی پر بھی پڑے گا اور افغان طالبان مسئلہ کشمیر پر پاکستان کی اور کشمیریوں کی حمایت کریں گے۔پاکستان دشمنی میں مودی سرکار اس حد تک چلی گئی ہے کہ روسی وزیر کے بقول اب پاکستان کے انکار کے بعدبھارت والے امریکہ کو فضائی اڈے قائم کرنے کی اجازت دینے لگے ہیں۔ جہاں سے امریکہ افغانستان میں ڈرون حملے کرنے کی پوزیشن میں آ جائے گا۔
ایسا کچھ کرنے سے پہلے امیدہے بھارت سرکار ماضی کے واقعات سے ضرور سبق حاصل کرنے کی کوشش کرے گی۔ بھارت میں مسلم کش فسادات کروا کر اگر بھارتی حکمران یہ سمجھتے ہیں کہ وہ مسلمانوں کو دبا دیںگے تو ایسا نہیںہو سکتا۔ صرف کشمیر کی مثال ہی کافی ہے جہاں 72سالوں سے بھارت اپنی لاکھوں مسلح افواج کے بل بوتے پر ہر ممکن جبر و تشددکے باوجودان آزادی پسندکشمیریوں کی تحریک آزادی کو نہیں کچل سکا تو وہ بھلا بھارت میں پھیلے 20 کروڑ مسلمانوں کو کیا بربادکرے گا۔ اگر ایسا کرنے کی کوشش جاری رہی تو پھر یہ داستان خودبھارت کی بربادی پر ہی ختم ہو گی۔ یہ ہم نہیں کہتے زمانہ کہتا ہے۔ تاریخ گواہ ہے۔