• news

افغا ن سر زمین پاکستان کیخلاف استعمال نہیں ہو گی

اسلام آباد (نامہ نگار‘ نیوز رپورٹر‘ نوائے وقت رپورٹ) پارلیمانی کمیٹی برائے قومی سلامتی کے اجلاس نے افغانستان میں امن، ترقی اور خوشحالی کیلئے نیک خواہشات کا اظہار کرتے ہوئے  اس امید کا اظہار کیا گیا ہے کہ افغانستان کی سرزمین پاکستان کے خلاف استعمال نہیں ہوگی۔ پاکستان اس امر پر یقین رکھتا ہے کہ افغانستان میں پائیدار امن و استحکام خطہ میں امن اور ترقی کے لیے ناگزیر ہے۔ پارلیمانی کمیٹی برائے قومی سلامتی کا اجلاس سپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر کی زیر صدارت پارلیمنٹ ہاؤس میں ہوا۔ اجلاس میں اعلی عسکری حکام نے ملک کی سیاسی و پارلیمانی قیادت، اراکین قومی اسمبلی و سینٹ، صوبوں‘ آزاد  جموں و کشمیر اور گلگت بلتستان کی قیادت کو اہم خارجہ امور، داخلی سلامتی، اندرونی و بیرونی چیلنجز، خطے میں وقوع پذیر ہونے والی تبدیلیوں خصوصاً تنازعہ کشمیر اور افغانستان کی حالیہ صورتحال کے حوالے سے جامع بریفنگ دی۔ اس عزم کا اظہار کیا گیا کہ پاکستان برادر افعان عوام کی حمایت اور تائید جاری رکھے گا اور افغانستان میں امن کیلئے اپنا کردار ادا کرتا رہے گا۔ اجلاس کے شرکاء کو مزید بتایا گیا کہ پاکستان نے افغان امن عمل میں پرخلوص طور پر مثبت اور ذمہ دارانہ کردار ادا کیا۔ اجلاس کو بتایا گیا کہ پاکستان اس امر پر یقین رکھتا ہے کہ افغانستان میں پائیدار امن و استحکام خطہ میں امن اور ترقی کے لیے ناگزیر ہے۔ مزید بتایا گیا کہ پاکستان کی بھرپور کوشش ہے کہ موجودہ حالات کسی اور انسانی و معاشی بحران کو جنم نہ دیں جو افغان عوام کی مشکلات میں اضافہ کا باعث ہوں اور اس سلسلے میں پاکستان عالمی برادری کے ساتھ مسلسل رابطہ میں ہے۔ اجلاس میں پاکستان افغانستان سرحد پر بارڈر کنٹرول کے نظام کے بارے میں بھی بتایا گیا۔ سیاسی و پارلیمانی قیادت نے بریفنگ پر اطمینان کا اظہار کیا اور افغانستان میں امن، ترقی اور خوشحالی کیلئے نیک خواہشات کا اظہار کیا۔ ان کی رائے میں ایسے اجلاس نہ صرف اہم قومی امور پر قومی اتفاق رائے کی تشکیل میں اہم کردار ادا کرتے ہیں بلکہ مختلف قومی موضوعات پر ہم آہنگی کو تقویت دینے کا بھی باعث بنتے ہیں۔  پارلیمانی کمیٹی کے اجلاس میں چیئرمین سینٹ صادق سنجرانی، قومی اسمبلی اور سینٹ میں قائد حزب اختلاف شہباز شریف اور سید یوسف رضا گیلانی، وفاقی وزراء شاہ محمود قریشی، چوہدری فواد حسین، چوہدری طارق بشیر چیمہ، شیخ رشید احمد، پرویز خٹک،  اسد عمر، شفقت محمود، ڈاکٹر شیریں مزاری، ڈاکٹر فہمیدہ مرزا، علی امین گنڈا پور، مراد سعید، سید شبلی فراز، ڈاکٹر فروغ نسیم، اعجاز احمد شاہ، مونس  الہی، نور الحق قادری، عمر ایوب خان، سید فخر امام، سید امین الحق، وزیر اعظم کے مشیر  معید یوسف،  ڈاکٹر بابر اعوان، وزیر مملکت برائے پارلیمانی امور علی محمد خان، چیئرمین کشمیر کمیٹی  شہریار آفریدی، وزیراعظم کے معاون خصوصی برائے سیاسی امور ملک محمد عامر ڈوگر، ڈپٹی سپیکر قاسم سوری، سینٹ میں قائد ایوان ڈاکٹر شہزاد وسیم، ارکان قومی اسمبلی بلاول بھٹو زرداری، اسعد محمود، ڈاکٹر خالد مقبول صدیقی، غوث بخش خان مہر، عامر حیدر اعظم خان، نوابزادہ شاہ زین بگٹی، اراکین سینٹ  شیری رحمان، اعظم نذیر تارڑ، انوار الحق کاکڑ، مولانا عبدالغفور حیدری، سید فیصل علی سبزواری، محمد طاہر بزنجو،  ہدایت اللہ خان، محمد شفیق ترین،  کامل علی آغا، مشتاق احمد،  سید مظفر حسین شاہ، محمد قاسم اور  دلاور خان شریک  ہوئے۔ ارکان قومی اسمبلی شاہد خاقان عباسی، خواجہ محمد آصف، رانا تنویر حسین، احسن اقبال چوہدری، راجہ پرویز اشرف اور حنا ربانی کھر، سید نوید قمر، محسن داوڑ، خواجہ سعد رفیق، طارق صادق، سید فیاض الحسن، سینیٹر میاں رضا ربانی اور قومی اسمبلی کی کمیٹی برائے دفاع کے ممبران کو خصوصی طور پر دعوت دی گئی ہے۔ اجلاس میں چاروں صوبوں کے وزراء اعلی، وزیر اعظم آزاد جموں و کشمیر، اور وزیر اعلی گلگت بلتستان نے خصوصی دعوت پر شرکت کی۔ اجلاس میں چیف آف آرمی سٹاف جنرل قمر جاوید باجوہ، ڈی جی آئی ایس آئی لیفٹیننٹ جنرل فیض حمید، ڈی جی آئی ایس پی آر میجر جنرل بابر افتخار سمیت دیگر اعلی عسکری حکام بھی موجود تھے۔ وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے قومی سلامتی کی پارلیمانی کمیٹی اجلاس کے بعد میڈیا سے گفتگو میں کہا ہے کہ قومی سلامتی پر اپوزیشن سمیت تمام جماعتوں کو اعتماد میں لیا۔ سنجیدہ مسئلے پر سب کی رائے تھی کہ پارلیمانی لیڈرز کو اعتماد میں لیا جائے۔ نئی صورتحال پر پارلیمانی لیڈرز سمیت اہم رہنماؤں کو آگاہ کیا۔ ڈی جی آئی ایس آئی نے اجلاس کے شرکاء کو بریفنگ دی۔ آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے سوالات کے جواب دیئے۔ افغانستان کی صورتحال پر شرکاء کو آگاہ کیا گیا۔ اپوزیشن لیڈرز نے اپنا نکتہ نظر پیش کیا۔ ہم نے حکومتی موقف پیش کرنے کی کوشش کی۔ افغانستان پر بتایا کہ یہ پیشرفت ہوئی ہے اور ہم یہ چاہتے ہیں۔  تفصیلات میں نہیں جا سکتا کیونکہ بریفنگ ان کیمرہ تھی۔ مجموعی طور پر اپوزیشن قائدین کو اعتماد میں لینا ہمارا مقصد تھا۔ ماحول بہت اچھا تھا۔ افغانستان پر ضرورت پڑی تو مزید اجلاس کر لیں گے۔ شاہ زین بگٹی نے قومی سلامتی پارلیمانی کمیٹی  اجلاس میں شرکت کے بعد کہا ہے کہ  ہمسایہ ممالک کے ساتھ اچھے تعلقات ہونے چاہئیں۔  ناراض  بلوچ رہنماؤں کے ساتھ بات چیت کا عمل جاری ہے۔ پاکستان کو تسلیم کرنے والا رعایت کا مستحق ہوگا۔ وزیر داخلہ شیخ رشید نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا ہے کہ  اجلاس میں زبردست ماحول تھا‘ ایسا ہوتے رہنا چاہئے۔ صحافی نے سوال کیا کہ کالعدم ٹی ٹی پی سے متعلق کوئی فیصلہ ہوا۔ انہوں نے جواب دیا کہ کالعدم ٹی ٹی پی سے متعلق کوئی فیصلہ نہیں ہوا۔ آئی این پی کے مطابق قومی سلامتی پارلیمانی کمیٹی کے اجلاس میں ایم کیو ایم نے دفاتر کھولنے کا مطالبہ کیا۔ وفاقی وزیر خالد مقبول صدیقی نے کارکنوں کی رہائی کا بھی مطالبہ کرتے ہوئے کہا کہ ٹی ایل پی بحال ہو سکتی ہے تو ہمارا کیا قصور ہے‘ دفتر کھولنے کا مطالبہ کرتے رہے مگر اجازت نہیں دی گئی‘ پولیس والوں کو شہید کرنا بڑی دہشت گردی ہے تالیاں بجانا نہیں۔ خالد مقبول صدیقی سے سوال کیا گیا کہ آج وزیراعظم کیوں نہیں آئے‘ جس پر خالد مقبول صدیقی نے جواب دیا کہ یہ تو وزیراعظم سے ہی پوچھنا پڑے گا۔

ای پیپر-دی نیشن