افغانستان کے مسا ئل کا تر جیحی حل ورنہ عالمی امن کو پھر خطرہ ممکن
تجزیہ: محمد اکرم چودھری
دنیا افغانستان کو نظر انداز کرنے کا خمیازہ بھگتے گی۔ اگر افغانستان کے مسائل کو ترجیحی بنیادوں پر حل نہ کیا گیا، عالمی طاقتوں اور اداروں نے ذمہ داری کا احساس نہ کیا تو ایک مرتبہ پھر دنیا کا امن خطرے میں پڑ جائے گا۔ پاکستان مسلسل ناصرف دنیا کو حقائق سے آگاہ کر رہا ہے بلکہ افغانستان میں پائیدار امن کے قیام اور وہاں قائم نئی حکومت کو درپیش بنیادی مسائل حل کرنے میں تعاون کر رہا ہے۔ پاکستان کی کوششیں خطے اور دنیا کے امن کو قائم رکھنے کے لیے ہیں۔ بدقسمتی ہے کہ واضح مشکلات اور خراب حالات کے باوجود بین الاقوامی برادری کا رویہ تاحال منفی ہے۔ ورلڈ فوڈ پروگرام کے سربراہ کا الرٹ عالمی طاقتوں اور عالمی اداروں کے سربراہان کے سوئے ہوئے ضمیر کا جگانے کی ایک کوشش ہے۔ وزیراعظم عمران خان کہتے ہیں کہ افغانستان میں انسانی بحران سے خبردار کرتا رہا ہوں۔ اب ورلڈ فوڈ پروگرام کے سربراہ نے بھی افغانستان کے حوالے سے الرٹ جاری کیا ہے۔ درحقیقت پاکستان میں امن افغانستان کے امن سے مشروط ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان مسلسل اس اہم ترین مسئلے پر دنیا کو ناصرف حقائق سے آگاہ کر رہا ہے بلکہ اپنا کردار ادا کرنے کی کوشش بھی کر رہا ہے۔ وزیراعظم عمران خان کہتے ہیں کہ پاکستان افغانستان کے ساتھ ہر ممکن تعاون کرتا رہے گا۔ عالمی برادری کی ذمہ داری ہے کہ اس انسانی بحران کو روکنے میں اپنا کردار ادا کرے۔ یہ صورتحال نہایت خطرناک ہے۔ عالمی بینک کے صدر ڈیوڈ مالپاس کہتے ہیں کہ طالبان کے افغانستان پر قبضہ کرنے کے بعد اگست کے آخر میں معطل کی گئی مالی امداد کو دوبارہ شروع کرنے کا کوئی امکان نہیں ہے۔ صرف یہی نہیں بلکہ طالبان کو افغانستان کے نو ارب ڈالرز کے ذخائر کی رسائی بھی روک دی گئی ہے۔ ان حالات میں کوئی بھی نئی حکومت کیسے اپنی ضروریات پورا کر سکتی ہے۔ یہ اقدامات صرف اور صرف ایک پسندیدہ اور نمائندہ حکومت کو ناکام کرنے کے لیے ہیں۔ طالبان کے ساتھ مذاکرات کیے گئے ہیں، لگ بھگ دو دہائیوں تک وہاں جنگ ہوئی اور عالمی برادری نے من پسند حکومتیں بھی بنائیں لیکن طالبان کی واپسی پر برسوں جس فوج پر اربوں ڈالرز خرچ کیے گئے ان میں سے کسی نے بھی لڑنے کی جرات نہیں کی۔ کیا دنیا کو طالبان کی کامیابی ہضم نہیں ہو رہی یا پھر عالمی طاقتیں اپنی ناکامی کا بدلہ لینے کے لیے دنیا کو ایک اور جنگ میں جھونک رہی ہیں۔