• news

وزیراعظم پیش، سخت سوالات4ہفتے میں رپورٹ دیں: سپریم کورٹ

اسلام آباد (اعظم گِل /خصوصی رپورٹر) وزیراعظم عمران خان نے سانحہ اے پی ایس از خود نوٹس کیس میں سپریم کورٹ میں کہا ہے کہ قانون کی بالادستی پر یقین رکھتا ہوں۔ ملک میں کوئی بھی قانون سے بالا تر نہیں نا ہی کوئی مقدس گائے ہے۔ سپریم کورٹ حکم دے ہم کارروائی کرینگے۔ سپریم کورٹ آف پاکستان کا کہناہے کہ سانحہ اے پی ایس کے وقت سات اہم عہدوں پر فائز شخصیات کے کردار کا جائزہ لے کر قانون کے مطابق کارروائی کی جائے اور چار ہفتوں میں وزیر اعظم عمران خان کے دستخط سے تفصیلی رپورٹ جمع کروائی جائے۔ اس عمل میں بچوں کے والدین کو بھی شامل کیا جائے۔ وزیراعظم عمران خان کا کہنا ملک میں کوئی بھی مقدس گائے نہیں تاہم اہم عہدیداروں کی اخلاقی کوتاہی کی بنیاد پر مقدمہ درج نہیں ہو سکتا۔ جسٹس قاضی محمد امین کا کہنا ہے کہ کیا تحریک طالبان نے مذاکرات کر کے ہم ایک اور سرنڈر ڈاکیومنٹ دستخط کرنے جا رہے ہیں۔ چیف جسٹس گلزار احمد کی سربراہی میں تین رکنی بنچ نے سانحہ اے پی ایس کیس کی سماعت کی۔ وزیراعظم عمران خان عدالتی حکم پر سپریم کورٹ میں پیش ہوئے تو اٹارنی جنرل نے پیش ہو کر بتایا کہ سپریم کورٹ کے طلب کرنے پر وزیراعظم کمرہ عدالت میں موجود ہیں۔ جس پر چیف جسٹس نے کہا استفسار کیا کہ کیا وزیر اعظم نے سپریم کورٹ کا حکم پڑھا ہے۔ جس پر اٹارنی جنرل نے کہا وزیرا عظم نے سپریم کورٹ کا حکم پڑھا ہے جس کے بعد چیف جسٹس نے وزیر اعظم کوروسٹرم پر مخاطب کرتے ہوے کہا 2014ء میں واقعہ ہوا اے پی ایس واقع کو سات سال گزر گئے۔ کسی بھی پالیسی بنانے والے کے خلاف کیا کارروائی ہوئی؟ کوئی کارروائی ہونی چاہیئے تھی تاکہ آئیندہ ایسا نہ ہو گزشتہ سماعت پر بھی ایک حکم دیا تھا جس پر وزیر اعظم عمران خان نے کہا اس وقت ہماری صوبے میں حکومت تھی اسی شام کو میں فوری ہسپتال گیا اور جو اقدامات کر سکتے تھے کئے میں نے خود جا کر دیکھا جس حال میں بچے تھے اور والدین تو ٹراما میں تھے۔ صوبائی حکومت نے پورا کردار ادا کیا جو وہ کر سکتی تھی۔ چیف جسٹس پاکستان نے کہا شہید ہونے والے بچوں کے والدین کہتے ہیں ہمیں پیسے نہیں چاہیئے اصل مسئلہ یہ تھا ساری حکومتی مشینری کہاں تھی۔ عدالت نے مختلف افراد کے نام بھی دیئے اس پر کیا کارروائی ہوئی بطور وزریراعظم آپ کے پاس اختیارات ہیں۔ جسٹس قاضی محمد امین نے کہا مسٹر وزیراعظم پاکستان کوئی چھوٹا ملک نہیں دنیا کی چھٹی بڑی فوج رکھتے ہیں۔ لیکن آج پھر مجرمان کو مذاکرات کی ٹیبل پر لایا جا رہا ہے کیا دوبارہ سرنڈر ڈاکیومنٹ دستخط کرنے جا رہی ہے۔ دوران سماعت چیف جسٹس پاکستان نے کہا اے پی ایس واقعہ کے بعد اپنی مرضی کی کارروائی کی گئی جسکو اللہ کے سوا دیکھنے سننے والا کوئی نہیں۔  سب لوگ مزے سے ریٹائرڈ ہو کر چلے گئے سب سے پہلے انکو ذمہ دار ٹھہرانا چا ہیئے تھا۔ اتنی بڑی خفیہ ایجنسی تھی کیا آئندہ واقعات کو روکنے کیلئے کوئی اقدام کیا گیا۔ عدالتی حکم میں جن افراد کے نام لکھے گئے ہیں۔ سب گئے آج مزے سے زندگی گزار رہے ہیں۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا ہماری سکیورٹی اسٹیبلشمنٹ اور انٹیلجنس کی ناکامی ہے۔ حکومت کی جانب پہلی پیش کی گئی رپورٹ پڑھی ہے کوئی سخت اقدام نہیں اٹھایا گیا کیا اقدام اٹھانے کیلئے خواہش نہیں تھی۔ دیکھنا ہے کہ اس وقت افئیرز کون چلا رہا تھا۔ گولی چلانے والے کو نہیں اس کے پیچھے والے کو پکڑنا ہے۔ بطور وزیر اعظم آپ نے مجموعی طور پر دیکھنا ہے اس واقعہ کو ہونے دینا بہت بڑی ناکامی ہے۔ عدالتی ریمارکس پر وزیر اعظم عمران خان نے کہا مجھے تھوڑا وقت دیں تاکہ میں عدالت میں ساری باتیں بتا سکوں۔ وزیراعظم نے کہا دہشتگردی کے خلاف جنگ میں ہمارے 80 ہزار افراد ہلاک ہوئے۔ میں نے تو ہمیشہ امریکہ کے ساتھ دینے کی مخالفت کی تھی۔ پاکستان کو اس جنگ میں شامل ہی نہیں ہونے دینا چاہیئے تھا۔ وزیراعظم نے کہا ہم نے نیشنل ایکشن پلان بنایا اور دہستگردی کے خلاف جنگ جیتی، خود کش بمبار کا حل تو امریکہ بھی نہیں نکال سکا۔ آج بھی مجھے بتایا گیا ہے کہ عدالتی حکم میں شامل افراد کی صرف اخلاقی ذمہ داری بنتی ہے جس پر ایف آئی آر نہیں کٹ سکتی۔ جسٹس قاضی محمد امین نے کہا آپ ہمارے بھی وزیراعظم ہیں میں اپنے وزیراعظم سے پوچھنا چاہوں گا کہ سادھوکی میں نو پولیس اہکار قتل ہوئے کیا اس پر حکومت نے کسی کو پکڑا کیا؟۔کیا وہ پولیس اہلکار آپ یا مجھ سے کم اہم تھے؟۔ وزیر اعظم نے کہا واقعہ کے بعد نیشنل ایکشن پلان بنایا گیا اس میں مزید بہتری لائے، کوآرڈینینش کمیٹی بنائی گئی۔ دہشتگردی کے خلاف جنگ جیتی ہے لیکن اب پھر بلوچ اور دیگر دہہشتگرد پاکستان آ رہے ہیں جس پر عوام کے تحفظ کیلئے بہت سارے اقدمات کئے ہیں۔ جس پر چیف جسٹس پاکستان نے کہا وزیراعظم صاحب آپ کہہ رہے ہیں کہ ہم پاکستان میں محفوظ نہیں جس پر وزیر اعظم نے کہا جب تک افغانستان کا ایشو حل نہیں ہوتا مسائل رہیں گے۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا ہم ان تمام مشکلات کو سمجھتے ہیں لیکن احتیاط کیلئے اقدمات کرنا ہیں۔ سپریم کورٹ نے 20 اکتوبر کے حکمنامہ میں سات نام دیئے تھے۔ والدین کی تسلی کیلئے اقدمات کریں جس کی بھی سیکورٹی ذمہ داری تھی اس کے خلاف کارروائی ہو گی ۔ وزیر اعظم نے کہا کوئی مقدس گائے نہیں، عدالت حکم دے کارروائی کریں گے۔ میں تو خود قانون کی حکمرانی پر یقین رکھتا ہوں۔ چیف جسٹس پاکستان نے کہا کلرک اور اے ایس آئی کے خلاف کارروائی کر دی گئی۔ ہمارے پاس ایک کمیشن کی رپورٹ ہے جو ہم نے پڑھی ہے۔ جس کے بعد اٹارنی جنرل نے عدالت نے کہا جس کی بھی ذمہ داری تھی کارروائی کی گئی۔ کمیشن رپورٹ کا ایک حصہ بھی نہیں جس پر کارروائی نہ ہوئی ہو۔ عدالت نے کہا ذمہ داروں کا تعین ہوگا تو لوگوں کو بھی اعتماد ہوگا جس پر جسٹس قاضی محمد امین نے کہا مانیں کہ انٹیلیجنس کی ناکامی ہوئی ہے۔ کیا انکے خلاف کارروائی کی۔ جس پر اٹارنی جنرل نے کہا ایک راستہ تو یہ تھا کہ اے پی ایس کے بعد وزیرا عظم سمیت سب استعفی دے کر گھر چلے جاتے جس پر جسٹس قاضی محمد امین نے برملا کہا وہ سب استعفی دیتے تو انکی جگہ بہتر لوگ آ جاتے اٹارنی جنرل نے کہا اس وقت تو ویسے بھی ن لیگ اور پی ٹی آئی کا سنجیدہ ایشو چل رہا تھا۔ ملکی حالات ایسے نہیں تھے کہ مزید بے یقینی پیدا ہو۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا جب تک ان افراد کے خلاف کارروائی نہیں ہو گی والدین کو سکون نہیں ملے گا۔ چیف جسٹس پاکستان نے کہا عدالت میں پیش کی گئی رپورٹ پر حکومت نے خود فیصلہ کرنا ہے۔ اب ریاست کا کام ہے کہ انکے خلاف کارروائی کرنا ہے تو کیا کارروائی کرنی ہے اٹارنی جنرل نے کہا سارے معاملے پر تفصیلی بریفنگ دینے کو تیار ہیں۔ جس پر چیف جسٹس نے کہا کوئی ذمہ دار ہے تو اس کے خلاف کارروائی کریں اگر ذمہ دار نہیں تو کارروائی مت کریں۔ عدالت ایسا کوئی حکم نہیں دے گی لیکن کم از کم ایسے اقدامات کے ساتھ آئیں جس سے ہر ایک کے کردار کا پتہ چلے عدالت نے کہا اس سارے عمل میں ضروری ہے کہ بچوں کے والدین کو بھی اعتماد میں لیں۔ وزیر اعظم ان سے ملیں جس پر وزیر اعظم عمران خان نے کہا میں پہلے بھی ان سے مل چکا ہے لیکن پھر بھی ملوں گا۔ پیسے دینے کے علاوہ اب اور کیا کر سکتے ہیں۔ جس پر چیف جسٹس نے کہا ان کو آپ کے پیسے نہیں چاہیئے آپ نے ان کی تسلی کی ہوتی تو یہ لوگ عدالت میں کیوں کھڑے ہوتے۔ وزیر اعظم نے کہا اگر واقعی قوم کا فائدہ کرنا ہے تو اس بات کا پتہ چلایا جائے کہ 80 ہزار لوگ کیوں مرے۔ کیوں ہم اس جنگ میں شامل ہوئے جس پر چیف جسٹس نے کہا آپ وزیر اعظم ہیں۔ آپ کے پاس اختیار ہے تاریخ میں بہت سے بڑے لوگوں کے خلاف کارروائی ہوئی۔ تاریخ سے دیکھیں اور کارروائی کریں۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا جس کی بھی جان گئی وہ سب ہمارے ہیرو ہیں ہمارا نقصان ہوا آپ کو کسی بھی کارروائی سے کوئی نہیں روک رہا۔ اس سے پہلے کیس کی سماعت شروع ہوئی تو چیف جسٹس نے استفسار کیا ذمہ داران کیخلاف مقدمہ درج ہوا؟ اٹارنی جنرل نے کہا انکوائری رپورٹ میں کوئی فائنڈنگ نہیں، جس پر چیف جسٹس نے کہا ملک میں اتنا بڑا انٹیلی جنس سسٹم ہے۔ اربوں روپے انٹیلی جنس پر خرچ ہوتے، دعوی بھی ہے کہ ہم دنیا کی بہترین انٹیلی جنس ایجنسی ہیں، اپنے لوگوں کے تحفظ کی بات آئے تو انٹیلی جنس کہاں چلی جاتی ہے؟۔ جسٹس قاضی محمد امین نے کہا اطلاعات ہیں کہ ریاست کسی گروہ سے مذاکرات کررہی ہے۔ کیا اصل ملزمان تک پہنچنا اور پکڑنا ریاست کا کام نہیں؟ چیف جسٹس نے کہا واقعہ کے بعد بچوں کو سکولوں میں مرنے کیلئے نہیں چھوڑ سکتے۔ چوکیدار اور سپاہیوں کیخلاف کارروائی کر دی گئی۔ اصل میں تو کارروائی اوپر سے شروع ہونی چاہیے تھی۔ اوپر والے تنخواہیں اور مراعات لیکر چلتے بنے۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا اداروں کو معلوم ہونا چاہیے تھا قبائلی علاقوں میں آپریشن کا رد عمل آئے گا۔ سب سے نازک اور آسان ہدف سکول کے بچے تھے، یہ ممکن نہیں کہ دہشت گردوں کو اندر سے سپورٹ نہ ملی ہو۔ چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کیا وزیراعظم نے عدالتی حکم پڑھا ہے؟۔ اٹارنی جنرل نے کہا وزیراعظم کو عدالتی حکم نہیں بھیجا تھا۔ عدالتی حکم سے آگاہ کروں گا۔ چیف جسٹس نے کہا اٹارنی جنرل صاحب یہ سنجیدگی کا عالم ہے؟ وزیراعظم کو بلائیں ان سے خود بات کرینگے۔ ایسے نہیں چلے گا، بچوں کے والدین کے وکیل امان اللہ کنرانی نے دوران سماعت مئوقف اپنایا کہ حکومت ٹی ایل پی کے ساتھ مذاکرات کر رہی ہے۔ قصاص کا حق والدین کا ہے ریاست کا نہیں، ریاست سمجھوتہ نہیں کر سکتی۔ جس پر عدالت نے کہا یہ سیاسی باتیں یہاں نہ کریں۔ عدالت نے اپنے حکم میں قرار دیا کہ وزیراعظم اور اٹارنی جنرل کی جانب سے ذمہ داروں کے خلاف کارروائی کی یقین دہانی کروائی گئی ہے۔ ذمہ داران کے خلاف کارروائی کی جائے گی۔  عدالت نے قرار دیا کہ ہر ایک عہدیدار کے کردار اور ذمہ داری کا تعین کیا جائے اور اس میں والدین کو بھی شامل کیا جائے جس کے بعد عدالت نے چار ہفتوں میں وزیراعظم کی دستخط شدہ رپورٹ طلب کرتے ہوئے کیس کی سماعت ملتوی کر دی۔

ای پیپر-دی نیشن