پاکستانی ڈرامے کیسے ہونے چاہئیں؟
پاکستان ڈرامہ انڈسٹری کی تاریخ میں کئی ڈرامے ایسے بن چکے ہیں جنہوں نے معاشرے میں ہونے والی ناانصافیوں کی نہ صرف عکاسی کی بلکہ ناظرین کو معاشرتی مسائل سے آگاہ کرنے میں بھی اہم کردار ادا کیا۔ چاہے وہ بہترین کامیڈی ڈرامے ہوں یا رومانوی، تاریخی روایات سے جڑے ہوں یا کسی خاص واقعہ کے گرد گھومنے والے لانگ پلے۔ یہی وجہ ہے کہ چلتے چلتے 80 کی دہائی میں ڈرامہ ایک ''جمہوری فن ''بن چکا تھا۔ قارئین کیا آپ کو وہ عہد یاد ہے کہ جب وارث، دھواں، ہوائیں، دھوپ کنارے، اندھیرا اجالا، شمع، الفابراووچارلی ڈرامہ سیریل ٹیلی وژن پر نشر ہوا کرتے تھے تو ان کی ہر قسط کے موقع پر گلیاں، بازار سنسان ہو جایا کرتے تھے، کاروباری مراکز صحرا کا منظر پیش کرنے لگتے تھے۔ ڈراموں میں محاورات اور جاندار ڈائیلاگ کا اثر یہ ہوا کہ عوام حقیقی زندگی میں جذبات کو خوبصورت اور موثر انداز میں عیاں کرنے لگے۔ اس دور کے اعلی پایہ کے ادیبوں نے لکھا اور قابل ہدایت کاروں نے اس کو ڈرامے کی شکل میں پیش کیا تو عوامی پذیرائی،تفکرات غم کا مداوا،معاشرتی اصلاح کے سبب ڈرامہ آرٹ کا حصہ بن گیا ایسا آرٹ جس کو ادب کا نام دیا جاتا ہے۔ ادبی لحاظ سے ڈرامہ ایسا آئینہ ہے جس میں معاشرے کا عکس اپنی اصلی حالت میں دکھائی دیتا ہے۔ لیکن دور حاضر میں ٹی وی ڈرامہ اب ادب کا حصہ نہیں رہا کیونکہ پاکستانیوں نے اپنی ثقافت کو چھوڑ کر اغیار کے طور طریقوں کو گلے لگا لیا ہے اور اپنی پہچان کو بھلا دیا ہے اپنے اسلاف کے کارناموں کو فراموش کر دیا ہے۔ قوموں کی پہچان ثقافت سے ہوتی ہے۔ ہر قوم میں اپنی ثقافت کو رائج کرنے اور اسے پروان چڑھانے کا طریقہ مختلف رہا ہے۔انڈین میڈیا ایک خاص منصوبہ بندی کے تحت ڈراموں کے ذریعے بآسانی پاکستانی یوتھ میں اپنا کلچر سرایت کرتا جا رہا ہے چاہے وہ موضوع اخلاقیات کے دائرے میں آتے ہوں یا نہ آتے ہوں... انہیں کوئی فرق نہیں پڑتا۔ حالانکہ انڈین تہذیب اور پاکستانی تہذیب میں زمین و آسمان کا فرق ہے۔ گزشتہ برسوں میں انڈین ثقافت کے زیرِ اثر طلاق، ساس بہو کی جنگ، تھپڑوں کی برسات، دوسری شادی، ماں بیٹی کی آپس میں نفرتیں، بیوی کا شوہر سے بدتمیزی کا انداز، ماں باپ کی بے توقیری، قریبی رشتہ داروں کے جادو ٹونے، باپ بیٹے کی لڑائی جیسے موضوعات نے مقصدیت سے بھرے ڈراموں کی جگہ لے لی ہے۔ 95فیصد ڈرامے ایسے ہیں جن میں صرف رشتوں اور خاندان کو توڑنے والی کہانیاں دکھائی جا رہی ہیں۔ دادی، نانی کو باعث زحمت دکھایا جاتا ہے۔ نندوں کو ڈائن، چڑیل باور کروایا جارہا ہے۔ نتیجتاً رشتوں میں بدگمانیاں پیدا ہو رہی ہیں۔اکثر اوقات ڈراموں میں یہ سین دیکھنے کو ملتے ہیں کہ عورت، عورت کی دشمن ہے۔ ماں کوخودغرض دکھایا جاتاہے جو بیٹے،بیٹی کی تنخواہ کی شائق ہوتی ہے۔ پیسوں کی خاطر اپنے شوہر، بچوں،گھر کو قربان کرنے سے بھی دریغ نہیں کرتی۔قارئین اندازہ لگائیے کہ ایک مضبوط خاندانی سسٹم ان ڈراموں کے اثرات سے کیسے محفوظ رہ سکتا ہے۔ اصل میں ملک دشمن عناصر جان چکے ہیں کہ پاکستان کا مضبوط فیملی سسٹم ہی درحقیقت ان کی طاقت ہے جس کی ٹریننگ سے بہترین انسان تیار ہوتے ہیں۔ مضبوط سسٹم میں سب سے بڑا کردار ہی عورت کا ہوتا ہے جو ماں، بہن،بیٹی،بیوی کے معتبر نام سے جانی جاتی ہے۔ عورت کو ٹاگٹ بناتے ہوئے اپنے آپ میں اتنا الجھا دیا ہے کہ یہ سوچ ہی تقریبا ختم کردی گئی ہے کہ اس کی گود سے نکلنے والے بچے آنے والی نسلوں کے لیے کیسے برج ثابت ہونگے۔بدقسمتی سے کتنے ہی گھر صرف ان ڈراموں کے گلیمر اور گمراہ کن خیالات کی وجہ سے ٹوٹتے ہیں۔ اگر واقعتاً چند گھروں میں لڑائی جھگڑے کے واقعات ہوں بھی تو ان کو ڈرامائی انداز میں پیش کرکے پوری قوم کو دکھانے کی بھلا کیا ضرورت ہے؟ میرے نزدیک اگر دکھایا ہے تو اس کا معقول حل پیش کیا جانا چاہیے۔ڈراموں میں خوشگوار ماحول میں صرف گرل فرینڈ، بوائے فرینڈ کو دکھایا جاتا ہے۔ ان کی رومانٹک بات چیت، ریسٹورنٹس میں گھومنا، چھپ چھپ کر ملنا بڑا خوشگوار دکھایا جاتا ہے۔جب شادی ہو جاتی ہے تو بس پھر لڑائی جھگڑے شروع… یہی واضح ہوتا ہے کہ ڈراموں کے ذریعے یوتھ کو شادی جیسے پاکیزہ بندھن کی بجائے فرینڈ شپ کلچر عام کرنے کا سبق دیاجارہا ہے۔ بسا اوقات ڈراموں میں اخلاقیات کے دائرے کو عبور کرتے ہوئے ایسے جملوں کا تبادلہ ہوتا ہے کہ آپ فیملی بالخصوص بچوں کے ساتھ ٹی وی دیکھتے ہوئے شرم محسوس کرتے ہیں۔ افسوس کہ آجکل کا نوجوان گہری سوچ اور فکر سے عاری ہے۔ نئی آنے والی نسل نے تفریح کا غلط مفہوم لے لیا ہے۔ ان کو عشق، معاشقہ، فحاشی و عریانی پرمبنی کہانیاں دلفریب لگتی ہیں۔ موبائل ڈیوائس جسے صرف پیغام رسانی کے مقاصد کے لیے استعمال ہونا چاہیے تھا… غیر مہذب مقاصد کے لیے استعمال ہو رہا ہے۔ انتہائی سستے پیکجز سے عریانی کا راستہ نوجوانوں کی دسترس میں ہے۔ پاکستانیوں کو بحیثیت قوم اس وقت اچھے ماڈل کی ضرورت ہے۔ ڈرامہ رائٹر پروڈیوسر، قابلِ تقلید کردار دکھا کر معاشرے کو سدھارنے میں اپنا حصہ ڈال سکتے ہیں۔ نئے لکھاریوں کی اگر کمی ہے تو ماضی کے ناول نگاروں کی تخلیقات کو آج کے وقت کے مطابق بنانے کے لیے سکرپٹ میں تھوڑی بہت تبدیلیاں کی جا سکتی ہیں، موجودہ زمانے کے عناصر شامل کیے جا سکتے ہیں جو ناظرین کی توجہ کا باعث بنیں مگر اس بات کا ضرور لحاظ رکھنا ہوگا کہ ہم ان ناولوں کیساتھ انصاف کررہے ہیں؟۔ ناولوں کی اصل روح و معنی کو متعارف کروایا جائے۔ ڈرامہ رائٹرز کو سوچنا ہوگا کہ ہمارا عمل معاشرے کے لیے تخریبی ہے یا تعمیری۔ ہمیں ایسے ڈرامہ انڈسٹری میں ایسے ڈراموں کو پرموٹ کرنا ہوگا جو نہ صرف تفریح مہیاکریں بلکہ عوام الناس کو ایجوکیٹ بھی کریں تاکہ پاکستانی معاشرے کا شیرازہ مثبت انداز سے ثقافت کی اقدار کے ساتھ جڑا رہے۔