وہی منزلیں ہیں وہی راستے
وٹہ سٹہ عام طور پر بارٹر سسٹم یا باہمی مفاہمت کا انداز ہے۔ اگر یہ وٹہ سٹہ متحد رہے تو ایک قسم کا سماجی دباؤ اور جوابی کارروائی کی کھڑکی کھولتا ہے، جس میں اپنی بیوی سے بدسلوکی کرنے والا شخص اس بات سے خوفزدہ ہو سکتا ہے کہ اس کا سالا خود اس کی بہن کے ساتھ ایسا سلوک کر سکتا ہے۔ ان معنوں میں وٹہ سٹہ شوہروں کے تشدد سے بیویوں کو تحفظ فراہم کرتا ہے۔ عملی طور جہاں اس رواج کی وجہ سے کئی جگہوں پر امن قائم رہتا ہے، وہیں انتہاپسندانہ یا جوابی گھریلو تشدد کے واقعات کا بھی مشاہدہ کیا گیا ہے۔ کئی معاشروں میں وٹہ سٹہ کو جہیز یا مہر میں کمی لانے والے غیر رسمی اقدام کے طور پر بھی سمجھا گیا ہے . اور اگر اس مرکب کو الگ کر دیا جائے تو وٹہ یعنی پتھر اور سٹہ یعنی جوا رہ جاتا ہے . حکومت کے پاس ان پتھروں کا ڈھیر ہے اور عوام کو سزا کے طور پر
سنگسار کرنے کا سلسلہ جاری ہے .ہر الیکشن میں عوام جوا کھیلتی ہے اور ہار کر حکومت بنانے والے ارکان کے پتھر کھاتی ہے . یہ پتھر عملی طور پر ٹیکس اور مہنگائی کے طور پر اور لفظی طور پر بچوں جیسی تقاریر اور نادان دوست کے بیانات کی صورت دیکھنے کو ملتے ہیں . وٹہ سٹہ کے کسی بھی رشتے میں حکومت کہیں نہیں ہارتی. ناسمجھی کے ہاتھوں تجربات کی پالیسی کے نتیجے میں جہاں کہیں عوام کی چیخیں نکلتی ہیں وہاں فلمی ولن کی طرح عوام کو ریلیف دینے کے بجائے نیا جوا کھیلا جاتا ہے کہ اگر یہ دو خاندان اپنی لوٹی ہوئی دولت واپس لے آئیں تو مہنگائی آدھی ہو جائے گی۔
یہاں کوئی دانا حکیم تو ہے نہیں جو نبض پہ ہاتھ رکھے اور مرض میں مبتلا مریض کو ڈھارس دے .زخم پر نمک چھڑکنے کے لیے الزامات اور گالیوں کو تاش کے پتوں کی طرح پھیلا کر جیتنے کی کوشش کی جاتی ہے اور وہ بھی اس یقین کے ساتھ کہ عوام گالیاں کھاکے بھی بے مزا نہیں ہو سکتی۔
الزامات در الزامات کے پتوں میں کوئی ایسا پتہ نہیں نکلتا جو عوام کو جیت کی خبر سنائے اور ان کے خوشی سے چمکتے چہرے دیکھے۔ تاش کے باون پتوں میں وہ پتے شامل ہی کہاں ہیں۔ کھیل کے اصول و ضوابط ایک طرف ۔ بس یوں لگتا ہے کہ تبدیلی کے خواہاں پتے پھینٹنے میں مگن ہیں۔
تعلیم کے ساتھ نمبروں کی تقسیم نے جو گل کھلایا۔ اس کا تاوان آنے والی نسلیں بھگتیں گی۔ ڈینگی میں شہباز شریف نے جس دانائی سے اقدامات کئے تھے وہ سب مسترد کر کے مرض کی پرورش کی گئی۔ ایک قابل، انتظامی صلاحیتوں سے مالا مال شخص کو نعروں کی گونج میں دبا دیا گیا۔ کسی مرحلے پر بھی عقل کی رسائی نہیں۔ بس منتقم مزاجی نے آنکھوں پر ایسی پٹی باندھی ہے جو عوام کی آنکھوں پر بھی باندھی جا رہی ہے اور انھیں کولھو کے بیل بنایا جا رہا ہے .یس باس سننے کی چاہ نے کوئی راستہ سلامت نہیں رہنے دیا۔
وہی منزلیں ہیں وہی راستے ..صرف راستوں پر پتھر بڑھ گئے ہیں اور بڑھتے ہی جا رہے ہیں یہی وہ خوش حالی کا خواب ہے جس کی تعبیر میں اب درختوں پر بھی پتھر لٹکتے دکھائی دیتے ہیں۔ مجسمہ ساز ہر بار نیا مجسمہ بنا کر الزام مالی کو دے دیتا ہے۔ اذہان کی تباہی مقصود ہے اور خوب دل لگا کر کی جا رہی ہے ۔ اندھے کباڑی کے تھیلے میں بھی اب خواب نہیں، صرف دشنام گوئی کی ٹافیاں ہیں جس کو نئی نسل میں شعور کی جگہ پھیلایا جا رہا ہے۔ ان کے ہاتھ میں دلیل کی جگہ ہاؤ و ہو کا نعرہ ہے۔ انہیں سکھایا گیا ہے کہ یہی تبدیلی ہے اور جیت کا نشان بھی یہی ہے۔ کیا کہہ سکتے ہیں سوائے اس کے کہ ؎
اپنے ہر دشنام کو تولو ہو تم پھولوں کی بارش میں
اور ہم پر ہے قدغن اتنی، بات بھی کرنا گالی ٹھہری