• news
  • image

صاف پانی والا گورنر پنجاب


ہم ایک غریب ملک ہیں ، جو کہ سب ہی جانتے ہیں ، نا ہمارے پاس کوئی بہت زیادہ انڈسٹری ہے اور نا ہی کوئی بہت بڑے "Industrial Tycon"ہیں ، مگر آج کی اس ترقی یافتہ دنیا میں جو صنعتی ترقی ہم دیکھ رہے ہیں ، اس کے سب سے زیادہ شدید اثرات پاکستان پر ہو رہے ہیں اور افسوس کی بات یہ کہ ہم اس بارے میں بھی کچھ نہیں جانتے۔ جہاں پچھلی صدی میں دنیا وسائل اور صنعتی ترقی کے لئے لڑائیاں لڑ رہی تھی ، آج حالات بالکل مختلف ہیں ، ان لڑائیوں اور صنعتوں نے اب ہمارے کرئہ ارض کو اس قدر بد صورت اور زہر آلود کر دیا ہے کہ اس پر زندہ رہنا بہت مشکل ہے،بڑے اور ترقی یافتہ ممالک اب اپنی پوری استعداد صرف اس کام پر بروئے کار لا رہے ہیں کہ جو انہوں نے پچھلی صدی میں بگاڑا ہے اسے دوبارہ سے ٹھیک کیسے کرنا ہے اور اس کی خاطر وہ اپنا سارا کچرا اٹھا کر غریب ممالک میں پھینک دیتے ہے۔آج ہماری زمین کو بہت سارے مسائل کا سامنا ہے جن میں ماحولیاتی اور آبی آلودگی کے سبب ہونے والی تباہ کاریاں پہلے نمبر پر ہیں، جس میں دیکھا جائے تو پاکستان ان تباہ کاریوں سے سے سب سے زیادہ متاثر ہونے والا ملک ہے۔
اسی طرح آلودہ پانی جہاں دنیا بھر کے لئے ایک بہت بڑا مسئلہ ہے وہیں پاکستان میں یہ مسئلہ بہت سنگین ہو چکا ہے ۔ پاکستان میں متعدد سنگین امراض اور ناگہانی اموات کی ایک بہت بڑی وجہ آلودہ پانی ہے جسے پینے سے لوگ پیٹ‘ جلد‘ جگر اور دیگر مختلف امراض کا شکار ہو جاتے ہیں۔ یہ پانی میں فلورائیڈ کی بڑھی ہوئی مقدار کے سبب لاحق ہوتی ہے۔ آلودہ پانی کے سبب جوڑوں کا درد اور ریڑھ کی ہڈی کے مسائل بھی پیدا ہو جاتے ہیں۔ اس کے علاوہ آنکھوں اور جلد کے بہت سے مسائل کا بھی آلودہ پانی سے تعلق ہے۔پاکستان میں ڈائیریااور گیسٹرو کے سالانہ دس کروڑ کیسز ہوتے ہیں۔ 
گیسٹرو اور ڈائیریا زیادہ تر بچوں میں پایا جاتا ہے۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق پاکستان کے ہسپتالوں میں چالیس فیصد اموات کی وجہ آلودہ پانی ہی ہے۔ آلودہ پانی پولیو وائرس کے پھیلانے کا اہم ترین ذریعہ ہے۔مالیاتی لحاظ سے ملک کو گندے پانی سے ہونے والے امراض اور دیگر مسائل کی وجہ سے سالانہ ایک سو بارہ ارب روپے جبکہ صحت کی خرابی اور آمدنی میں کمی سے روزانہ تیس کروڑ روپے کا نقصان ہوتا ہے۔ پاکستان کے صرف پندرہ فیصد شہری اور اٹھارہ فیصد دیہی علاقوں میں پینے کے صاف پانی کی سہولت میسر ہے۔ توجہ طلب بات ہے کہ یہ آبِ حیات زہر میں تبدیل ہوتا جا رہا ہے۔ حکومت کو یہ سنگین مسئلہ ترجیحی بنیادوں پر حل کرنے کی ضرورت ہے۔ 70 فیصد سے زائد آبادی جو دیہاتوں اور کچی آبادیوں میں رہتی ہے ان کے لئے اپنے مالی حالات کے پیش نظر ممکن نہیں ہے کہ وہ فلٹر شدہ یا ابلا ہوا پانی پی سکیں۔ پاکستان میں پینے کے پانی کے حوالے سے کچھ تلخ حقائق کے منظر عام پر آنے کے بعد اب یہ نعمت ملک کے بیشتر علاقوں میں صحت کے لئے غیر محفوظ تصور کی جا رہی ہے۔ 
ایسے میں اکثر اوقات ہم بڑھتی ہو ئی بیماریوں کو دیکھ کر ہسپتالوں کی استعداد کار بڑھانے پر زور دئیے جا رہے ہیں مگر اصل مسئلہ وہیں کھڑا ہے، ایسے میں بھلا ہو کہ اللہ نے ہمیں کچھ سمجھ دار اور عقل رکھنے والے لیڈر بھی عطا کر دئیے جو بلاشبہ ان معاملات کو سمجھتے ہیں اور انہیں مستقبل میں ان سے پیش آنے والی پریشانیوں کا ادراک بھی ہے ،ان میں وزیراعظم پاکستان عمران خان اور گورنر پنجاب جناب چوہدری محمد سرور پیش پیش ہیں۔ آلودہ پانی کے مسائل سے دوچار لوگوں کے لئے پورے ملک میں صاف پانی کی فراہمی کی سکیمیں لگانا چاہتے ہیں، مگر فی الحال وہ صوبہ پنجاب میں سینکڑوں صاف پانی کی فراہمی کے پراجیکٹس پر کام کر رہے ہیںاور اپنی تمام تو مصروفیات کے باوجود وہ خود ان تمام پراجیکٹس کی نگرانی کر رہے ہیں ، اللہ کرے کے وہ جلد ان تمام پراجیکٹس کو پایہ تکمیل تک پہنچائیں او رپھر ان کو رواں دواں رکھنے کا کوئی باقاعدہ انتظام بھی کر سکیں، کیونکہ یہ نا ہو کہ کہیں پہلے ادوار میں شروع ہونے والے منصوبوں کی طرح یہ منصوبے بھی کچھ عرصہ بعد بند ہوجائیں۔اس خمن میں ایک اتھارٹی کا قیام بھی عمل میں لایا گیا ہے ، مگر خدا کے لئے کچھ ایسی قانون سازی بھی کروا کر جائیے گا کہ یہ نا ہو کہ کل کو کوئی اور آنے والا صرف اپنے نام کی تختی لگوانے کی خاطر ان اربوں روپوں کے عوامی فلاح کے منصوبوں کو برباد کر دے۔اگر اس کے لئے کوئی باقاعدہ صوبائی ادارہ بن جاتا ہے، جو کہ نا صرف عوام کو صاف پانی فراہم کرنے کا ذمہ دار ہو بلکہ مستقبل میں ان کی مرمت بھی کر سکے اور بڑھتی ہوئی آبادی کے پیش نظر ایسے اور منصوبے ہر سال لگائے جاتے رہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ نئی بننے والی ہاوسنگ کالونیوں کو بھی پابند کیا جائے کہ جہاں وہ اپنے مکینوں کو پینے کے صاف پانی کی فراہمی کے لئے لازمی اقدامات کریں گے۔

epaper

ای پیپر-دی نیشن