احسان فراموش پاکستانی قوم نہیں، حکمران ہیں
پاکستان کا مطلب کیا لا الہ الا اللہ۔۔۔ لا الہ الا اللہ سے شروع ہونے والا سفرنشیب وفراز طے کرتے ہوئے دھوکہ بازی ، دغا بازی ، بے ایمانی ، لوٹ مار ، چور بازاری کی اِس نہج پر پہنچ گیا ہے کہ ایف ٹی ایف اے کی گرے لسٹ میں سے نکلنا مشکل ہو گیا ہے ۔ جن لوگوں کی کرپشن کی وجہ سے پاکستان اِس لسٹ میں گیا اُن کی بلا سے اُن کو بس یہ مصیبت ہے کہ اُن کی لوٹ مار کے راستے میں رکاوٹ آ گئی ہے اور پاکستانی عوام اب اُن کے کہنے سننے سے باہر ہو چکی ہے لیکن اُمید پر دنیا قائم ہے کہ اُن کو اقتدار میں آنے کی اُمید ابھی بھی قائم و دائم ہے۔پاکستان کیوں بنا، لا الہ الااللہ ُکو اِ س کے ساتھ منسوب کیوںکیا گیا؟اِسکی وجہ سادہ سی ہے کہ قیام پاکستان کی وجوہات میں ایک بنیادی وجہ اسلامی تشخص کی اہمیت پر الگ ملک کا مطالبہ کیا گیا جس میں اسلامی اقدار و قوانین کے نفاذ کو یقینی بنانا تھا۔ میرے والد فدااحمدکاردارمرحوم ہمیں تکمیلِ پاکستان کی کہانیاں، واقعات، اور پھر قیامِ پاکستان کے بعد درپیش چیلنجز سے نپٹتے ہوئے اِس ملک کو کھڑا کرنے میں جو مشکلات پیش آئیں اُس کا طویل اور کٹھن راستے کا سفر نامہ بیان کرتے اِس دنیا سے رخصت ہو گئے کہ جو پاکستانیوں نے کٹھن سفرطے کیااور اُن مشکلات کو آج بھی جھیل رہے ہیں۔
چند سال پہلے تک کرپشن کے ہر مقابلے میں پاکستان پہلے دوسرے نمبر پر رہا کرتا تھا کیونکہ یہاں کے حکمرانوں نے اِس ملک سے اپنا اپنا بھتے کا حصہ وصول کرنے کی باریاں لگائی ہوئی تھیں جب اپنے اہداف پورے کے لیتے تو دوسرے کے لئے راستہ خالی چھوڑ دیتے تھے۔ مگر جب سے پاکستان گرے لسٹ میں گیا ہے موجودہ حکومت پاکستان کو گرے لسٹ سے نکلوانے کی کوششوں میں لگی ہوئی ہے ،اب پاکستان کرپشن کے میدان میں کس نمبر پر ہے کچھ معلوم نہیں ۔لیکن بیرونِ ممالک پاکستان کی ساخت کو جو نقصان پہنچا تھا اُس میں کسی حد تک کمی آ چکی ہے اور اُمید ہے کہ پاکستان دنیا میں کوئی مقام بنا لے مگر شرط یہ ہے کہ کرپٹ ٹولہ دوبارہ برسراقتدار نہ آ جائے۔
برصغیر کے مسلمانوں اور قیام پاکستان کودو بڑی قوتوں کی مخالفت کا سامنا تھا ایک انگریز جو برصغیر کے حکمران تھے دوسرے ہندؤ وںکا ، اِن دونوں کی بھرپور کوششوں اور مخالفت کے باوجود پاکستان بنا ۔لیکن بدقسمتی یہ رہی کہ قائداعظم کا قیام ِ پاکستان کے ایک سال بعدانتقال ہوگیا، اور آہستہ آہستہ مخلص لیڈروں کا سیاست سے دور ہو جا نا اور مفاد پرست لوگوں کا آگے آ جانا ہی پاکستان کے لئے نقصان دہ ثابت ہوا۔نواب لیاقت علی خان کی شہادت کے بعد اقتدار کی میوزیکل چیئر کے کھیل نے بھی پاکستان کو مستحکم نہ ہونے دیا۔ بالآخر 1958ء میں جنرل ایوب خان نے حالات کی نازکت کا فائدہ اُٹھاتے ہوئے اقتدارپر کنٹرول کر لیا۔ 1958ء سے1969ء تک اقتدار سے چمٹا رہا ۔ اُس کے دور میں 1965ء کی جنگ کا معرکہ ، صنعتی ترقی اور دوسرے حکومتی شعبوں میں اصلاحات ہوئیں تودوسری طرف اقتدار کے نشے میں پاکستان کے لئے کئی مسائل کو جنم بھی دیا ۔ جنر ل ایوب خان کے دور میں ہی پاکستان سے منسلک سب سے گھٹیااور گھناؤنے عمل کے سلسلے کی ابتداء ہوئی یعنی پاکستان کے مخلص لوگوں کی تذلیل کرنا ، یہ لکھتے ہوئے میرا قلم ساتھ نہیں دے رہاکہ جب فاطمہ جناح کے ساتھ مقابلہ لگایا بلکہ مقابلہ ہی نہیں اُان کی تذلیل کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی ۔ پھر تو جیسے ہر حکمران نے اپنی بد مست طاقت کو استعمال کرتے ہوئے ہر اُس شخص کی کارکردگی کو اپنے پیروں تلے روندہ جس نے پاکستان کے لئے خلوص دل سے خدمت کی اور اُسے عوامی پذیرائی ملی ۔ دوسری طرف دیکھاجائے تو پاکستان کے اصل ہیروز تووہی لوگ ہیں جنہوں نے پاکستا ن کے لئے بے لوث اپنی خدمات کو بروکار لاتے ہوئے اِس ملک کی بہتری کے لئے کام کیا ۔ محترمہ فاطمہ جناح کیساتھ جو کچھ جنرل ایوب خان اور اُس کے ساتھیوں نے کیاتاریخ اُس ذلت کو کبھی معاف نہیں کرے گی ۔پھر 1965 ء کی جنگ کے ہیرو ایم ایم عالم نے جبری ریٹائرڈ منٹ کے بعد اپنی جائز پنشن بھی لینے سے انکار کر دیا۔
پاکستان کو اٹیمی طاقت بنانے میں پیش پیش ڈاکٹر عبدالقدیر خان جنہوں نے پاکستان کو ایک اٹیمی طاقت بنایا ۔ اُن کی شہرت و عزت سے سابق وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف کو خدا جانے کیا خوف تھا کہ ڈاکٹر عبدالقدیر خان کو بھی جبری ریٹائرڈ کرکے گھر رخصت کر دیا ۔جو حکمرانی کے منصب پر فائز ہوتا اورجب اِس پر بیٹھتا ہے وہی سب سے پہلے عوام کی گردن کو مہنگائی ، مافیا ازم ،بد امنی، چور بازاری اور کرپشن کی دلدل میں مزید گرا دیتا ہے اگر حکمران پاکستان کے اصل ہیروز کے ساتھ نارواسلوک کرتے ہیں تو وہ اُس عوام کو بھی نہیں بخشتے جو اُن کو ووٹ دے کر اقتدار کی کُرسی پر بیٹھاتے ہیں۔