کرشنگ سیزں کا آغاز، آئندہ سال چینی کی قیمت میں واضح کمی ہو گی
تجزیہ: محمد اکرم چوہدری
ملک میں آج سے کرشنگ سیزن شروع ہو رہا ہے جس سے یہ امید ہو چلی ہے کہ گنے کی وافر پیداوار کے باعث اگلے سال کے دوران چینی کی قیمتوں میں گزشتہ سال کی نسبت واضح کمی آئے گی۔ لیکن بعض حلقوں کی جانب سے یہ غلط تاثر دینے کی کوشش کی جارہی ہے کہ صارفین کو اگلے ایک سال کے دوران چینی 100 روپے فی کلو ہی ملے گی جو کہ صارفین کی جیب پر ڈاکے کے مترادف ہوگا۔ اس بات کو ثابت کرنے سے پہلے میں وزیراعظم صاحب کو باور کروانا چاہتا ہوں کہ اگر شوگر ملوں کو گنے اور چینی کی قیمتوں کے تعین کی کھلی چھٹی دے دی گئی تو ایک طرف صارفین کے ساتھ زیادتی ہو گی تو دوسری طرف گنے کے کاشتکار کو اس کا طے شدہ معاوضہ بھی نہیں مل سکے گا اور یوں یہ سیاسی خودکشی کے مترادف ہوگا۔ با اثر شوگر انڈسٹری کو کھلی چھٹی پی ٹی آئی کی حکومت کے تابوت میں آخری کیل ثابت ہوگی۔ پاکستان میں عوام کو مہنگائی سے بچانے کے لئے اگر آٹے کے سرکاری نرغ مقرر ہو سکتے ہیں تو چینی کی قیمتوں کو کیوں مارکیٹ فورسز کے رحم و کرم پر چھوڑنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ اب آتے ہیں چینی کی سال 2021-22 کے دوران قیمت کی طرف۔ امسال کے لئے پنجاب حکومت نے ایک من گنے کی قیمت 225روپے مقرر کی ہے جبکہ سندھ حکومت نے ایک من گنے کی قیمت 250 روپے مقرر کی ہے۔ پنجاب میں ایک من گنے کی قیمت 225روپے ہو تو گنے کی مٹھاس کی بنیاد پر ایک کلو چینی کی قیمت 56.25روپے بنتی ہے۔ اس میں 17فیصد جی ایس ٹی کے حساب سے 9.56روپے جمع کئے جائیں تو اس کا ٹوٹل 65.81روپے روپے بنتا ہے اس میں اگر لیبر اور مینوفیکچرنگ قیمت کے 10روپے شامل کئے جائیں تو 75.81روپے بنتے ہیں اور اس قیمت میں شوگر مل مالکان کا منافع شامل کیا جائے تو ایک کلو چینی کی قیمت 80.81 روپے سے زیادہ ہرگز نہیں بنتی ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ پنجاب کے صارفین کو ایک کلو چینی زیادہ سے زیادہ 85روپے میں سارا سال ملنی چاہئے۔ اسی طرح سندھ میں صارفین کو گنے کی بنیاد پر ایک کلو چینی 88.12روپے میں ملنی چاہئے۔ امسال خود پاکستان شوگر ملز ایسوسی ایشن کے اعدادوشمار کے مطابق ملک میں چینی کی پیداوار 65 لاکھ ٹن کے لگ بھگ کا اندازہ ہے جبکہ ملکی ضرورت 60لاکھ ٹن سالانہ ہے۔ پاکستان شوگر ملز ایسوسی ایشن نے اسی اندازے کی بنیاد پر وفاقی حکومت سے معاہدہ بھی کر لیا ہے کہ اضافی چینی وفاقی حکومت خرید کر اس کا سٹرٹیجک سٹاک رکھے گی اور چینی کی قیمتوں میں اضافے کی صورت میں قیمتوں کو مستحکم رکھنے کے لئے مارکیٹ میں سپلائی کی جائے گی۔ صورتحال اگر ایسی ہی رہے تو صارفین کو چینی مندرجہ بالا قیمتوں پر ملنے کا قوی امکان ہے۔ لیکن کسانوں نے رابطہ کرنے پر بتایا ہے کہ بعض شوگر مل مالکان نے کچھ کسانوں سے ایک من گنے کے 300روپے تک کے ایڈوانس سودے کئے ہیں۔ ظاہری بات ہے کہ وہ ان کو تو 300روپے من کے حساب سے ادائیگی کر دیں گے لیکن چونکہ اس سال گنے کی پیداوار زبردست ہے باقی کسانوں سے مقررہ قیمت پر گنا خریدیں گے لیکن شور مچے گا کہ گنا مہنگا خریدا ہے۔ اس لئے چینی کی قیمت 100روپے یا اس سے زائد مقرر کرائیں گے۔ میری وزیر اعظم عمران خان سے اپیل ہے کہ ایک کمیٹی تشکیل دیں جس کے سربراہ سپریم کورٹ کے جج ہوں اس میں سرکاری عہدے داروں کے ساتھ ساتھ شوگر ملوں کے نمائندے، کسانوں کے نمائندے شامل ہوں جو ملک میں گنے کی خریداری کا اعداد وشمار اکٹھا کر کے حکومت کو رپورٹ کرے کہ اس ملک میں گنے کی فی من اوسط قیمت کیا ہے پھر اس اوسط قیمت کی بنیاد پر ایک کلو چینی کی قیمت نکالی جائے۔ کہا جارہا ہے کہ ملک میں چینی کی قیمت کا تعین مارکیٹ فورسز کریں گی لیکن اس کے لئے80 سے زائد شوگر ملوں کے درمیان مقابلہ کی فضا قائم ہونا ضروری ہے۔ اگر ان میں گٹھ جوڑ ہو گیا تو صورتحال مختلف ہو گی۔ اس کی مانیٹرنگ مسابقتی کمشن پاکستان کو کرنی چاہیے تاکہ ملک میں صارفین کے مفادات کا تحفظ ہو سکے۔ ابھی کچھ عرصہ قبل مسابقتی کمشن پاکستان نے شوگر ملوں کو مالیاتی نے بے ضابطگیوں پر 44ارب روپے کا بھاری جرمانہ عائد کیا تھا۔گزشتہ سال ملک میں کرشنگ سیزن کا آغاز 10 نومبر کو ہو گیا تھا جس کے باعث ملک میں گندم کی بروقت کاشت ہوئی اور فصل بھی اچھی ہوئی۔ اس سال سندھ اور جنوبی پنجاب میں گنے کا کرشنگ سیزن 15 نومبر سینٹرل پنجاب میں 20نومبر اور خیبر پی کے میں 15نومبر سے 20نومبر کے درمیان آغاز ہورہا ہے جس کے بارے میں کاشتکار تنظیم پاکستان کسان بورڈ کے سیکرٹری اطلاعات حاجی محمد رمضان نے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ گندم کی بوائی کا 25فیصد رقبہ کم کاشت ہو گا کیونکہ گنا نہیں کٹے تو گندم کاشت نہیں ہو گی۔ لوگ چینی پر تو سمجھوتا کر لیں گے لیکن آٹا جو گندم سے بنتا ہے اس کی عدم دستیابی برداشت نہیں کر سکتے ہیں۔ گزشتہ سال بھی گندم انتہائی مہنگی تھی اس سال بھی گندم کی فی من قیمت اوپن مارکیٹ میں 2500روپے ہے۔ اگر گندم کی پیداوار کم ہوئی تو خدشہ ہے کہ گندم کی قیمت میں مزید اضافہ ہو گا اور اس کی امپورٹ بھی کرنی پڑے گی۔ حکومت کو اس پہلو پر بھی نظر رکھنی چاہیے۔ پاکستان شوگر ملز ایسوسی ایشن نے اعلان کیا ہے کہ ہمارے حکومت سے اتفاق رائے سے معاملات طے پا گئے ہیں۔ اب شوگر ملوں کے خلاف کوئی امتیازی کاروائی نہیں ہو گی۔ اس پر پنجاب حکومت کے اعلی حکام نے کہا ہے کہ اگر شوگر ملیں سرکاری طور پر مقرر کردہ 225روپے من سے کم قیمت پر گنا خریدیں گی تو قانون کے مطابق کارروائی ہو گی۔ اس کے علاوہ شوگر ملیں قانون کے مطابق گنے کے کسانوں کو 14 دنوں میں گنے کی قیمت کی ادائیگی کی پابند ہیں۔