• news
  • image

ڈگ فورڈ امیگریشن فرینڈلی یا…؟

امیگرنٹس تو جیسے ہی یہاں آتے ہیںویسے ہی یہاں کے سائیکل میں شامل ہو جاتے ہیں ۔ اس سا ئیکل میں شامل ہو نے کا تمام تر بوجھ خود ان ہی کے کندھوں پر ہو تا ہے ۔ ڈاکٹر،انجئینر، بنکر،اکاونٹنٹ ، استاد ، وکیل ۔۔غر ض کتنی بھی بڑی ڈگری کیوں نہ ہو یہاں آکر زیرو ہو جاتی ہے ۔ وہ تو یہ بھی نہیں پو چھتے کہ" ہم نے توکینیڈا میں جو پرو فیشن ڈیمانڈ میں تھے ، ان میں ہی اپلائی کیا تھا اور اسی بل بوتے پر یہاں آئے تھے مگر یہاں آکر تو ہماری ڈگریاں ردی ہو گئی ہیں اور ان کو دوبارہ سے زندگی دینے کے لئے ہمیں اپنی زندگی کے کئی اور سال ان کو دینے پڑیں گے۔۔"  بلکہ وہ چپ چاپ سر جھکا کر یہاں کے معاشرے ، معیشت اوریہاں کی اقدار کو سمجھنے میں جُت جا تے ہیں ۔ دو دو نوکریاں کرتے ہیں ساتھ پڑھائی سمجھیں تین نوکریاں ہو گئیں اور ساتھ ساتھ بچوں کو بھی سنبھالتے ہیں ۔۔ ایسے میں کوئی لڑکھڑا بھی سکتا ہے ، کسی کے پیر وں کے نیچے سے زمین سرک سکتی ہے یا سر پر آسمان گر سکتا ہے ، یعنی ان کی طبعیت خراب بھی ہو سکتی ہے، وہ ڈپریشن میں جا سکتے ہیں یا ان کو کوئی جسمانی بیماری بھی لاحق ہو سکتی ہے اور اس صورت میں وہ ویلفئیر ( جس کا طعنہ معززمیئر نے مارا ہے )پر بھی جا سکتے ہیں اور یہ کوئی جھوٹی یا جعلی وجوہات نہیں ہو تیں ۔جب امیگرنٹس کو یہاں کی امیگریشن ملتی ہے تو پہلے ان کا کردار ، صحت سب چھان پھٹک کر لی جاتی ہے۔ ۔ پھر بھی ایک سروے کے مطابق ایک عام امیگرنٹ یا ریفیوجی کی آمدنی تقریبا بارہ سال بعد یہاں کے پیدائشی کینڈین کے بر ابر پہنچتی ہے ۔ یعنی اس کی جد و جہد طویل اور دشوار ہوتی ہے اور پھل دیر سے نصیب ہو تا ہے حالانکہ پچھلے کئی سالوں سے کینیڈا میں زیادہ تر امیگرنٹس 45 سال سے کم  عمر کے ہی لئے جاتے ہیں اور وہ بہترین دماغ اور صحتمند جسم والے ہی ہو تے ہیں ( جب آتے ہیں تو ) ۔ 2019میں تقریبا 8,27,586 انٹرنیشنل سٹوڈنٹس کینیڈا کی یو نیورسٹیز اور کالجز میں آئے اور ان میں سے 58000نے یہاں کی شہریت حاصل کر لی ۔ یہ سٹوڈنٹس ہر سال ۲۱ بلین ڈالرز، کنیڈین معیشت میں شامل کر نے کا باعث ہو تے ہیں۔ اب یہ جو نوجوان خون یہاں آتا ہے تو وہ یہاں کے نظام سے فائدے کم اٹھاتا ہے بلکہ اس کی ذات سے اوروں کا زیادہ بھلا ہو جا تا ہے ۔اب تو کینیڈا کے دور دراز علاقوں کو بھی امیگرنٹس ہی آباد کر رہے ہیں ۔ 1997میں دس میں سے کوئی ایک امیگرنٹ اونٹاریو ،برٹش کولمبیا یا کیوبک سے باہر جا تا تھا اب دس میں سے چار امیگرنٹس باہر کے کم غیر آباد صوبوں میں جاتے ہیں ۔ وہ سب نوکریاں جوکینیڈا میں پیدا ہو نے والے لوگ قبول نہیں کرتے وہ یہ امیگرنٹس کر تے ہیں ۔ اس کے ساتھ ساتھ ایک تہائی امیگرینٹس  والنٹئیرورک کرتے ہیں، ان کے پاس کینیڈین تجربہ نہیں ہو تا ہے تو اس کے لئے بھی یہ ایک ضرورت بھی بن جا تی ہے۔ دو تہائی امیگرنٹس یہاں کی سوشل آرگنائزیشنز میں بھی کام کرتے ہیں ۔یہ سب اعداد و شمار گورنمنٹ آف کینیڈا کی اپنی ویب سائٹ پر موجود  ہیں ۔ ایسے میں اونٹاریو کے پر یمئیر کا یہ بیان انتہائی فضول اور بلا ضرورت لگتا ہے کہ آنا ہے تو یہاں آکر دبا کر کام کر ناہوگا ۔ اگر امیگرنٹس یہاں نہ آئیں تو آپ کا کام یہاں کے پیدائشی لوگوں کے ساتھ کیسے چلے آپ بھی جانتے ہیں ۔اور جتنا زیادہ کام امیگرنٹس کرتے ہیں وہ آپ کے بھائی راب فورڈ کے بیان سے ہی ثابت ہو جا تا ہے ۔ انہوں نے ایک دفعہ کہا تھا کہ ؛"امیگرنٹس بہت زیادہ کام کرتے ہیںہیں یہاں تک کہ سوتے بھی اپنی مشینوں کے پاس ہیں ۔"    ان ہی امیگرنٹس نے فنڈ ریزنگ کر کر کے یہاں کے ہسپتالوں میں وارڈز بنوائے ہیں ۔ ایک مثال دیکھئے ؛ برامپٹن ہسپتال کے لئے سکھ کمیونٹی نے پانچ سالوں میں دس ملین کا فنڈ اکٹھا کر کے ہسپتال کو دینے کا عہد کیا تھا ۔ یہاں کی سیاست میں بھی امیگرنٹس کا اہم کردار ہے ۔ پارلیمنٹ میں ٹوٹل 338ممبران ہیں جن میں سے 41ایسے ہیں جو کینیڈا میں پیدا نہیں ہوئے۔ اپنا آبائی وطن چھوڑ کر ہجرت کر نا کوئی آسان کام نہیں ہے ۔ یہ تھکا دینے والا سفر ہے ۔ کوئی راستے میں تھک کر بیٹھ بھی سکتا ہے ۔ یہ ملک جس کا نعرہ ہی انسانی حقوق کی برابری ، انصاف اور سب کو ساتھ لے کر چلنے کا ہے ، اس ملک کی فضائوں میں تفریق کا گند گھولنے کی کوشش نہ ہی کی جائے تو بہتر ہے۔  کینیڈا ایک گلدستے کی مانند ہے جس میں بھانت بھانت کے پھول اپنے اپنے رنگ اور اپنی اپنی خوشبو کے ساتھ اکٹھے مہکتے ہیں ۔ اس کو لوگوں کو تقسیم کرتے ہو ئے سیاسی بیانات سے آلودہ کر نے والوں کی ہر کوشش قابل ِ مذمت اور قابل ِ نفرت ہی رہے گی ۔ بے شک یہ کہہ لیا جائے کہ ڈگ فورڈ کے بیان کو مخالفین توڑ مروڑ رہے ہیں مگر یہ بات ایک اوپن سیکرٹ ہے کہ کنزرویٹیو کے دلوں میں امیگرنٹس کے لئے ایک بغض معاویہ ضرور رہتا ہے۔ جسے انگلش سپر میسی کی بیماری بھی کہا جا سکتا ہے ۔۔ اور اس کی ہم مذمت کرتے ہیں ۔ (ختم شد)

epaper

ای پیپر-دی نیشن