چودھری قدرت اللہ کی یادیں اور مہنگی چینی کا تصور
ہمارے لوگ مرتے جار ہے ہیں ۔ ڈاکٹر محمد اجمل نیازی کے بعد اب چوہدری قدرت اللہ بھی وطن کی فضائوں سے منہ موڑ گئے ہیں۔ لاہور کے اخبار نویسوں میں ان جیسا صاحب مطالعہ شخص شاید ہی کوئی اورہو۔ جب بھی ان سے کچھ پوچھنے کی ضرورت محسوس ہوتی ، انہوں نے کبھی مایوس نہیں کیا۔ ان کا جواب ہمیشہ شافی ثابت ہوتا۔ وہ کتاب کے آدمی تھے ۔ ان سے ہر ملاقات میں بندہ کچھ سیکھ کر ہی اٹھتا۔ ایک مرتبہ بتانے لگے ۔ ابو الکلام آزاد کی کتاب ’’انڈیا وِنز فریڈم‘‘ کا بہت چرچا رہتا ہے ۔ اکثر اس کتاب کا حوالہ دیا جاتا ہے ۔ بے شک ہندوستان کی جنگ آزادی پر کانگریسی نکتہ نظر سے لکھی گئی یہ بہت شاندار کتاب ہے ۔ مولانا آزاد کی اس کتاب کا عبدالوحید خاں نے’’ تقسیم ہند‘‘ کے نام سے بہت اچھا جواب لکھا ہے ۔ عبدالوحید خاں حکومت پاکستان کے وزیر اطلاعات بھی رہے ہیں۔ لیکن اس کتاب کا کبھی کوئی ذکر اذکار سننے میں نہیں آیا۔ بڑے دکھ سے بتانے لگے کہ یہ کتاب میرے پاس موجود تھی کہ کوئی دوست یا ملنے والا پڑھنے کیلئے مانگ کر لے گیا ۔ نہ ہی کتاب لوٹائی گئی اور نہ ہی یاد آرہا ہے کہ کتاب لیجانے والا کون تھا ؟ مال روڈ کے فٹ پاتھوں پر پرانی کتابوں کے انباروں میں بہت تلاش کیا۔لیکن یہ کتاب پھر ہاتھ نہ آسکی ۔ ان کی تجویز تھی کہ ایسی کتابوں کو سرکاری سطح پر چھپوا کر ارزاں نرخوں پر فراہم کرنے کا بندوبست ہونا چاہئے ۔ ان کے پاس ایسی نایاب کتابوں کا ذخیرہ موجود تھا۔ اب ان کے بعد اللہ جانے ان کتابوں کا کیا ہوگا؟ روزنامہ ’’پاکستان‘‘ کے دفتر میں ایک ملاقات میں بتانے لگے کہ اس زمانہ میں میاں شہباز شریف وزیر اعلیٰ پنجاب تھے ۔ مقامی علماء کا ایک وفد ان سے ملنے ان کے دفتر پہنچا۔ ملاقات میں میاں شہباز شریف ان سے پوچھنے لگے ۔ آپ اس قیامت کا اکثر ذکر کرتے رہتے ہیں جو مرنے کے بعد آنے والی ہے ۔ لیکن اس قیامت کا ذکر کبھی بھولے سے بھی آپ کی زبان پر نہیں آتاجو غریب لوگوں پر اس جہاں میں گزرتی رہتی ہے ۔ ملاقات میں موجود ایک شخص پوچھنے لگا۔ علماء نے میاں صاحب کے اس سوال کا کیا جواب دیا ؟ ہنس کر بولے ۔ ان لوگوں نے اس سوال کا کیا جواب دینا تھا۔ بس سنی ان سنی کر دی ہوگی ۔ پھر کہنے لگے۔ ہمارے علمائے دین زندگی کے مسائل سے بہت دور ہیں۔ مثال کے طور پر یہ ٹریفک لاز ڈسکس کرنے کو تیار نہیں۔ حالانکہ حضور اکرمؐ نے ریاست مدینہ میں عید کی نماز شہر سے باہر کھلے میدان میں ادا کرنے کے بعد راستہ بدل کر گھر پہنچنے کا حکم دیا تھا۔ آپ اسے جدید ٹریفک کا اولین ون وے تصور کہہ سکتے ہیں۔ ہمارے علمائے دین کا موقف بس یہی ہے کہ اس دنیا میں زندگی جیسے تیسے کر کے گزار لو اور اس ابدی زندگی کی فکر کرو جو ہمیشہ رہنے والی ہے ۔ پھر بتانے لگے کہ ایرانی علماء ہمارے علماء کی نسبت زندگی کے مسائل سے بہت قریب ہیں۔ بتانے لگے کہ اٹھارہویں صدی کے آخر میں ایک ایرانی بادشاہ نے برطانوی تاجروں کو ایران میں تمباکو کی تجارت کی اجارہ داری بخش دی ۔ ظاہر ہے کہ اس نے اس شاہی حکم کو جاری کرنے میں ایک خطیر رقم رشوت میں وصول کی ہوگی ۔ اس پر ایک ایرانی عالم دین نے فتویٰ جاری کر دیا کہ اب تمباکو نوشی حرام ہو گئی ہے ۔
پچھلے ہی دنوں کالم نگار رسول بخش رئیس نے یہ واقعہ اپنے کالم میں پوری تفصیل سے لکھا ہے ۔ ان کے مطابق 1890ء میں ایران کے بادشاہ نصر الدین شاہ نے برطانیہ کو تمباکو کا کاروبار کرنے کی ملک میں اجارہ داری دے دی ۔ اس پر آیت اللہ شیرازی نے فتویٰ دیا کہ اب تمباکو نوشی ایرانیوں کے لئے حرام ہوگئی ہے ۔ آیت اللہ کی آواز سب کی آواز بنی ۔ تہران اور دوسرے بڑے ایرانی شہروں کے کاروباری طبقہ نے اس فتوے پر من و عن عمل کیا۔ اس طرح آج سے 130 برس پہلے اس کامیاب احتجاج نے نصر الدین شاہ اور برطانیہ کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کر دیا تھا۔ یہ واقعہ پڑھتے ہوئے کالم نگار کے ذہن میں بے تحاشا مہنگی چینی کا خیال آیا ہے ۔ ایک خبر کے مطابق تحریک انصاف کی حکومت میں مہنگی چینی کی فروخت سے شوگر ملز مالکان کو 265ارب روپوں کا اضافی فائدہ پہنچا ہے ۔ صرف اس برس کے دس مہینوں میں یہ لوگ اس مد سے 60ارب کا اضافی فائدہ اٹھا چکے ہیں۔ وزیر اعظم کے اپنے بنائے ہوئے شوگر کمیشن کے مطابق اگر چینی کی قیمت میں 1روپیہ کلو اضافہ ہو جائے تو شوگر ملز مالکان کو سوا پانچ ارب روپوں کا اضافی فائدہ ہوتا ہے ۔ پھر شوگر ملزمالکان کا تعلق صرف حکمران جماعت سے نہیں۔شوگر ملز مالکان میں ہماری ساری بڑی جماعتوں کے بڑے شامل ہیں۔ اس سلسلہ میں کوئی فتویٰ یا معاشرتی تحریک ہی سود مند ثابت ہو سکتی ہے کہ چینی کا استعمال نصف یا کم از کم ، کم ہی کر لیا جائے ۔ تاجر تنظیموں کے مقابلے میں صارفین کی مضبوط انجمنوں کی ضرورت ہے ۔ صارفین کے حقوق کا تحفظ صنعتکاروں اور تاجروں کی تنظیمیں نہیں کر سکتیں۔
زندگی بہر حال گزر ہی جاتی ہے ، لینڈ کروزر کے ساتھ بھی ، سوزوکی کار پر بھی اور پیدل سواری کرتے ہوئے بھی ۔ پچھلے ہی دنوں 74برس کی عمر میں اس دنیا سے رخصت ہو نے والے یہ خود دار ، غیور اور قناعت پسند اخبار نویس چوہدری قدرت اللہ، بھلے وقتوں کے ایم اے انگریز ی پاس تھے ۔ یہ سوچ سمجھ کر میدان صحافت میں آئے ورنہ وہ سی ایس ایس کلاس کی پر آسائش اور آسان راہ سے واقف بھی تھے اور اہلیت بھی رکھتے تھے ۔ انہوں نے جانتے ، بوجھتے ، سمجھتے صحافت کی پرخار راہ اختیار کی ۔
میں نے تو دیدہ و دانستہ پیا ہے وہ زہر
جس کی جرات صف تسلیم و رضا میں بھی نہ تھی
وہ میاں برادران کے حامی تھے ۔ قلم سے ان کی بہت حمایت بھی کی ۔ لیکن ان کی داد و ہش سے پرے پرے ہی رہے ۔ روزنامہ نوائے وقت، جنگ اور پاکستان میں پوری عمر کھپا دینے والے اس درویش کی قناعت ، دیانت اور خود داری کا دسواں حصہ بھی ہمارے اہل اقتدار و اختیار کو میسر آجائے تو ہمارے بہت سے قومی مسائل حل ہو جائیں۔ اللہ مرحوم پر رحمت فرمائے ۔