آلودہ ترین شہر کے باسی
مجھے انتہائی دکھ کے ساتھ یہ اقرار کرنا پڑتا ہے کہ میں دنیا کے آلودہ ترین شہر کا باسی ہوں جہاں سانس لینا بھی دشوار ہو رہا ہے۔ میں روزانہ آلودہ آکسیجن کے سہارے زندگی گزارنے پر مجبور ہوں اور اس کی طفیل نہ صرف خود اپنے جسم میں کئی بیماریوں کے خلاف جنگ لڑ رہا ہوں بلکہ مجھے جان سے پیارے بچے عزیز واقارب دوست احباب اور زندہ دلوں کے شہر کے ایک کروڑ سے زائد باسی آلودہ ماحول میں بیماریوں سے نبرد آزما ہیں۔ کئی سالوں سے لاہور ان دنوں میں ائیر کوالٹی انڈیکس میں آلودہ ترین شہروں میں پہلے نمبر پر آرہا ہے اور یہاں کے رہنے والوں کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ وہ دنیا کے آلودہ ترین شہر میں رہنے کے باوجود فخر محسوس کرتے ہیں کہ وہ لاہور کے باسی ہیں۔ میں کافی دنوں سے اس بات کا تجزیہ کر رہا ہوں میں صبح اٹھ کر اپنی گاڑی کو دیکھتا ہوں تو اس پر باقاعدہ ڈسٹ کی ایک تہہ جمی ہوتی ہے۔ اسی طرح لان میں پودوں پر بھی تہہ نظر آتی ہے جس سے وہ سبز نظر آنے کی بجائے اور ہی رنگ میں رنگے دکھائی دیتے ہیں۔ مجھ سے ان کی یہ حالت دیکھی نہیں جاتی تومیں روزانہ پودوں کو پانی سے دھوتا ہوں لیکن روزانہ اتنی ہی ڈسٹ دوبارہ جم جاتی ہے اب گاڑی بغیر دھوئے قابل استعمال نہیں۔ میں سڑکوں پر موٹر سائیکل چلانے والوں کو دیکھتا ہوں تو وہ اپنے کپڑوں کو صاف رکھنے کے لیے اوپر رف کپڑے پہنتے ہیں منہ لپیٹ کر سفر کرتے ہیں ورنہ منہ قابل شناخت نہیں رہتا۔ میں سوچتا ہوں جتنی ڈسٹ ہمیں نظر آتی ہے اس کا عشر عشیر بھی اگر سانس کے ذریعے ہمارے جسم میں داخل ہو رہا ہے تو پھیپھڑوں کے ساتھ کیا سلوک کرتی ہو گی۔ دوسری جانب اگر دیکھا جائے توفارماسوٹیکل کمپنیوں کا کاروبار خوب پھل پھول رہا ہے شہر میں میڈیکل سٹوروں کی بہتات ہے ہر گلی محلے میں اتنی پرچون کی دوکانیں نہیں جتنے میڈیکل سٹور ہیں۔ میرے ایک دوست بھی میڈیکل سٹور چلاتے ہیں ان کا کہنا ہے کہ لاہور میں کوئی ایسا گھر نہیں جن کے ہاں دوائی نہ جاتی ہو ذرا لاہور کے ہسپتالوں پر ایک نظر ماریں تو ایسا لگتا ہے کہ ہسپتالوں میں میلہ لگا ہوا ہے۔ کسی ہسپتال میں تل دھرنے کی جگہ نہیں۔ اب تو پرائیویٹ ہسپتالوں میں بھی رش کا یہ عالم ہے کہ سفارش سے مریض دیکھانا پڑتا ہے اور ساتھ ہی ساتھ لیبارٹریوں کی بھی خوب افزائش ہو رہی ہے۔ ڈاکٹروں کا بھی کاروبار خوب پھل پھول رہا ہے۔ موسمیاتی آلودگی اپنی جگہ پر نت نئی بیماریوں کا سبب بن رہی ہے لیکن ساتھ ہی گندہ پانی پینے سے ہائیپاٹائٹس، کینسر اور پیٹ کی بیماریاں پھیل رہی ہیں۔ آلودہ اور ملاوٹ والی غذائیں کھانے سے علیحدہ بیماریاں پھیل رہی ہیں لیکن ہم خوشی خوشی روزانہ اس شہر کے باسی بننے کے لیے اربوں روپے کی سرمایہ کاری کر رہے ہیں۔ پنجاب کے لوگوں کا خواب ہے کہ ان کا لاہور میں گھر ہو وہ اپنے سارے وسائل جمع کر کے لاہور میں رہائش رکھنے کو ترجیح دیتے ہیں اور وہ یہ سارا کچھ اس لیے کرتے ہیں کہ بڑے شہروں میں انھیں تعلیم صحت روزگار کی سہولتیں باآسانی میسر ہوں گی۔ کہتے ہیں کہ دور کے ڈھول سہانے ہوتے ہیں قریب آئیں تو کان پھاڑتے ہیں۔ میرا تجزیہ ہے اگر آپ جلد مرنا چاہتے ہیں تو ضرور بڑے شہروں کا رخ کریں لیکن اگر آپ اپنی زندگی کو قانون فطرت کے مطابق گزرانا چاہتے ہیں اور کوالٹی لائف انجوائے کرنا چاہتے ہیں تو جہاں ہیں وہیں کے ماحول کو بہتر بنائیں۔ اگر تحقیق کی جائے تو جس ماحول میں ہم جی رہے ہیں یقینی طور پر کہا جاسکتا ہے کہ لاہوریوں کی فی کس عمر کم ہو گئی ہے حکومت کو چاہیے کہ وہ لاہور میں آبادی کو کم کرنے کے لیے اقدامات کرے۔ چھوٹے شہروں قصبوں میں تعلیم صحت اور روزگار کے مواقع فراہم کرے تاکہ آبادی کے دبائو کو بڑے شہروں میں کم کیا جاسکے۔ ایک حد سے زائد آبادی مسائل کا گڑھ بن جاتی ہے صوبائی دارالحکومت لاہور جسے کبھی زندہ دلوں باغوں اور تعلیمی اداروں کا شہر کہا جاتا تھا آج کنکریٹ کا ڈھیر بیماریوں کی آماجگاہ اور سوک پرابلم کا گڑھ بنتا جا رہا ہے۔ ایک مختاط اندازے کے مطابق لاہور میں سالانہ ایک سے سوا لاکھ گاڑیاں رجسٹرڈ ہوتی ہیں دوسرے شہروں سے آنے والی گاڑیاں علیحدہ ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ لاہور میں ہر قسم کی پلاننگ فیل ہو جاتی ہے کیونکہ جس تناسب سے آبادی اور اس کے لوازمات میں اضافہ ہو رہا ہے اس میں کسی قسم کی پلاننگ کارآمد ثابت نہیں ہو سکتی۔ لاہور آبادی کا ایٹم بم بنتا جا رہا ہے لیکن کسی کو ہوش نہیں اب لاہور نکو نک آچکا ہے۔ اب لاہور مینج ایبل نہیں رہا۔ خدارا اس بارے میں سوچا جائے اور لاہوریوں کو بھی زندہ رہنے کا حق دیا جائے۔