• news
  • image

لاہور دا پہلا نمبر!

 ویسے تو گزشتہ کئی برسوں سے فضائی آلودگی کے لحاظ سے پاکستان دنیا میں پہلے نمبر پر اور لاہور دنیا ہے شہروں میں اول آ رہا ہے، لیکن گزشتہ کچھ دنوں کے دوران ہم نے اس میدان میں اگلے پچھلے تمام ریکارڈ توڑ دیے ہیں ۔گزشتہ ایک ہفتے کے دوران لاہور کے کچھ علاقوں میں دن کے کئی حصوں میں AQI پانچ سو سے اوپر رہا۔ کچھ غیر ملکی ٹیلی ویژن رپوٹوں کے مطابق پیر کے روز لاہور کے کچھ حصوں میں یہ انڈکس 700 تک بھی گیا۔ آلودہ ترین علاقوں میں کوٹ لکھپت اور فتح گڑھ کے علاقے تھے ۔ حیران کن طور پر رائیونڈ کے گرد و نواح کے علاقوں میں بھی یہ انڈکس چار سو سے اوپر رہا۔ ان علاقوں میں بھی چھوٹی بڑی کئی صنعتیں قائم ہو چکی ہیں جہاں نہ تو گیسوں کے اخراج میں فلٹر نصب ہیں اور کئی جگہوں پر پرانا موبل آئل بطور ایندھن بھی استعمال ہوتا ہے۔ مجھے ، آپکو اور عام آدمیوں کو یہ سب معلوم ہے لیکن متعلقہ محکمے نہ جانے کیوں اس سب سے ناواقف ہیں۔ فضائی آلودگی کی اس لہر میں دو باتیں نہایت اہم ہیں۔ ایک تو یہ کہ کچھ ماہرین کے مطابق ان دنوں میں لاہور میں ہوا میں نمی کا تناسب دیکھا جائے تو ابھی سموگ بننا ممکن نہیں۔ یعنی کہ یہ سموگ نہیں بلکہ صرف اور صرف زہریلے مادے اور آلودگی ہے ۔ دوسرا یہ کہ ہوائیں ابھی لاہور سے بھارت کی جانب چل رہی ہیں۔ اس کا مطلب ہے کہ لاہور اور پاکستانی پنجاب میں فضائی آلودگی کی بنیادی وجہ بھارتی پنجاب میں فصلوں کا جلایا جانا نہیں بلکہ یہ سب ہماری اپنی پیداوار ہے۔ حقیقت کے برخلاف ہمارے متعلقہ ادارے عمومی طور پر اس سب کا ذمہ دار فصلوں کی باقیات کے جلائے جانے، بھارت سے آنے والی ہوا یا لاہور کے علاقے میں درختوں کی کٹائی ( اور ان جگہوں ہر ہائوسنگ سوسائیٹیوں کا قیام) کو ٹھہرا کر اپنی جان چھڑا لیتے ہیں۔ اگر اس سب میں حقیقت ہوتی تو ہمارے دیگر شہر جو بھارتی پنجاب سے فاصلے پر ہیں وہ سموگ اور فضائی آلودگی سے متاثر کیوں ہوتے؟ گزشتہ ماہ کے اعداد و شمار دیکھیں تو بہاولپور کا  AQI  145، کراچی139 ، پشاور 126، راولپنڈی 185، کوئٹہ 110 تک پہنچ چکا تھا۔ ان اعداد و شمار کو بیان کرنے کا مقصد آپکو اس مسئلے کی سنجیدگی سے روشناس کروانا تھا کیونکہ نہ جانے کیوں ہم بحیثیت قوم اور ہمارے سرکاری ادارے اس مسئلے کی حقیقت ماننے کو تیار ہی نہیں اور نہ ہمیں یہ احساس ہے کہ یہ مسئلہ اکتوبر نومبر میں عروج پر ہوتا ہے لیکن در اصل یہ بارہ کے بارہ مہینوں کا مسئلہ ہے۔یاد رہے کہ فضائی آلودگی ماپنے کا ایک اہم پیمانہ ’’ ائیر کوالٹی انڈکس‘‘ یعنی AQI ہے۔ صفر سے 50 تک کا AQI صحت مند، 51 سے 100 تک کا درمیانہ، 101 سے 150 تک کا خطرناک اور غیر صحت مند، 151 سے 200 شدید غیر صحت مند اوراس سے زیادہ نہایت خطرناک سمجھا جاتا ہے۔
سموگ دراصل دو انگریزی الفاظ Smoke اور Fog کو ملا کر بنا ہے۔ فضا میں موجود نائیٹروجن آکسائیڈ اور غیر مستحکم نامیاتی مرکبات سورج کی روشنی میں مل کر سموگ بناتے ہیں، یہ سموگ نہایت زہریلی ہوتی ہے اور سانس کی بیماریوں کے ساتھ ساتھ ناک اور آنکھوں کے لیے بھی نقصان دہ ہوتی ہے۔ اپنی قومی عادت کے مطابق اس اہم اور جان لیوا مسئلے کے حل کے لیے بھی باتوں اور تقاریر کی حد تک ہم نے بہت کچھ کیا ہے۔ فضائی آلودگی کے خاتمے کے لیے 2005 میں ’’ پاکستان کلین ائیر ایکشن پلان ‘‘ (PCAP)کا آغاز کیا گیا تھا۔ 2021ء میں کچھ غیر سرکاری تنظیموں نے اس سلسلے میں میڈیا میں آواز بلند کی۔ حکومتی اور سرکاری طور پر کوئی انتظام نہ ہونے کی بنا پر لوگوں کی جانب سے اپنی مدد آپ کے تحت کچھ سنسر (Senso) لگائے گئے جنہوں نے ڈیٹا اکٹھا کرنا شروع کیا ۔ 2001 ء میں ’’ پبلک انٹرسٹ‘‘ کو بنیاد بنا کر ایک رٹ پٹیشن لاہور ہائی کورٹ میں دائر کی گئی جس کے نتیجے میں (نومبر 2017) جس کے نتیجے میں لاہور ہائی کورٹ کے حکم پر ایک ’’ سموگ کمیشن‘‘ تشکیل دیا گیا جس نے تحقیق اور مشاہدے کے بعد مئی 2018 میں اپنی سفارشات پیش کیں کہ کس طرح پاکستان میں سموگ اورآلودگی کو کم کیا جا سکتا ہے۔ ان میں سے کسی سفارش پرآج تک عمل نہیں کیا گیا۔اور آج 2021 میں اتنی تبدیلی آئی ہے کہ آج بھی سرکاری سطح پر فضائی آلودگی اور سموگ ماپنے کا کوئی خاطر خواہ مربوط انتظام نہیں ہے۔ جو ڈیٹا ہمیں میسر ہوتا ہے وہ یا تو پرائیوٹ اداروں سے آتا ہے جو رضاکارانہ طور پر یہ کا م کر رہے ہیں یا پھر کراچی، لاہور اور پشاور میں موجود امریکی کونسلیٹ فضائی آلودگی کی پیمائش کرنے میں مدد کرتے ہیں۔ کچھ عرصہ قبل اقوام متحدہ کے ادارے فوڈ اینڈ ایگری کلچر آرگنائزشن (UNFAO) نے اپنے ایک پروگرام  R-SMOGمیں تحقیق کر کے یہ رپوٹ جاری کی تھی کہ پاکستان اور خاص طور پر پنجاب میں سموگ کی وجوہات میں ٹرانسپورٹ کا حصہ 43%، صنعتوں کا 25%، اور زراعت کا 20% ہے۔ یعنی اسکی وجوہات میںگاڑیوں کا دھواں، ناقص کوالٹی کا ایندھن، ٹرانسپورٹ کے کمزور انجن، صنعتی آلودگی، میونسپل اور صنعتی فضلے کا جلانا، خاص طور پر اینٹوں کے بھٹوں میں ربڑ اور ٹائیروں اور موبل آئل کا جلایا جاناوغیرہ اہم ہیں۔ کوئلے اور تیل سے چلنے والے پلانٹ بھی اس سب میں اپنا اپنا حصہ ڈالتے ہیں۔ ناقص گاڑیوں اور بسوں کو بغیر حقیقی معائینے کے ’’فٹنس سرٹیفیکیٹ‘‘ کیسے مل جاتے ہیں یہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں۔ صنعتی آلودگی کی بات کی جائے تو کسی بھی شہر کے چاروں جانب موجود صنعتوں میں سے کتنے یونٹوں میں درحقیقت ’’ ٹریٹنٹ پلانٹ ‘‘ موجود ہیں؟ گزشتہ دہائیوں میں ہم نے جوش و خروش کے ساتھ جو کوئلے اور تیل کے پاور پلانٹ لگائے ہیں ان میں سے کتنوں میں ایسا سسٹم موجود ہے جو عالمی معیار کے مطابق ان پلانٹوں کے اخراج سے فضا کو آلودہ ہونے سے بچاتا ہے؟ 
باوجود اس بات کے کہ اس فضائی آلودگی کا وجود عوام کو زہر دینے کے مترادف ہے۔ جانے کیوں کوئی بھی حکومت یا حکومتی ادارے اس سب کو نہ تو سنجیدگی سے لیتے ہیں اور نہ اس سلسلے میں کوئی ٹھوس اقدامات اور منصوبہ بندی ضروری سمجھتے ہیں۔ اس فضا میں سانس لینا ایسے ہی ہے جیسے کوئی شخص روزانہ بیس سے تیس سیگرٹ پی لے۔ اور یاد رہے کہ ہمارے چھوٹے چھوٹے بچے بھی ا سی فضا میں سانس لے رہے ہیں۔ اس کے باوجود ہم اس سب کی جانب سے آنکھیں بند کئے بیٹھے ہیں؟ اگر ہم ان عوامل کی فہرست بنائیں جن کی وجہ سے دنیا کے ممالک میںLife Expectancyمیں پاکستان کا نمبر 167 ہے تو اس فہرست میں سب سے اہم اور اوپر ’’ فضائی آلودگی ‘‘ ہو گی۔ پاکستان میں متوقع اوسط عمر تقریباََ 66 برس ہے۔ یعنی ایک بچہ جب پیدا ہوتا ہے تو پاکستان کے موجودہ حالات میں وہ 66 برس تک زندہ رہنے کی امید لے کر دنیا میں آتا ہے۔ یہی متوقع عمر مناکو میں90 برس، جاپان سنگاپور میں86 برس، کینیڈا اور فرانس میں82 برس ہے۔ اور تو اور سعودی عرب، عراق اور شام میں بھی یہ ممکنہ عمر 75 برس کے قریب بتائی جاتی ہے۔ یہ سب حقائق ہماری آنکھیں کھولنے کے لیے کافی کیو نہیں؟
٭…٭…٭

epaper

ای پیپر-دی نیشن