’’قبضہ گروپ‘‘
بھارت پر نریندرا مودی اور اسے حواریوں کا قبضہ ہے اور اس قبضہ گروپ کی وجہ سے کروڑوں انسانوں کا مستقبل جان و مال ہر وقت خطرے میں ہے۔ دنیا میں جہاں کہیں بھی قبضہ گروپ اقتدار میں آئے یا ایسی سوچ رکھنے والوں کو کھلی چھٹی ملے تو اس کے نتیجے میں صرف تباہی ہوتی ہے، لوگوں کو بزور طاقت بنیادی حقوق سے محروم کیا جاتا ہے۔ علاقائی سطح پر قبضہ گروپ شہریوں کی جائیدادوں پر قبضہ کرتا ہے، زندگی مشکل بناتا ہے اور ملکی سطح پر ایسی سوچ کے حامل افراد ملک و قوم کا بیڑہ غرق کرتے ہیں، دنیا کے امن کو خطرے میں ڈالتے ہیں، نسلوں کو اجاڑ دیتے ہیں۔ ایسا ہی کچھ ان دنوں بھارت میں ہو رہا ہے۔ جہاں سرکاری سطح پر صرف اور صرف انتہا پسندی کی تعلیم دی جا رہی ہے، ہندو انتہا پسندوں کو نجات دہندہ بنا کر پیش کیا جا رہا ہے جبکہ اختلاف رائے رکھنے والوں کے لیے زندگی اجیرن بنا دی گئی ہے۔ مسلمانوں پر سب سے زیادہ ظلم ہو رہا ہے اور اگر کوئی مسلمانوں پر ہونے والے مظالم پر آواز اٹھاتا ہے تو ریاستی سطح پر ڈرانا دھمکانا مقدمے بنانا معمول بن چکا ہے۔
بھارت میں اقلیتوں کے لیے ہر گذرتے دن کے ساتھ زندگی مشکل ہوتی جا رہی ہے۔ بالخصوص مسلمانوں کے لیے مشکلات میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ نریندرا مودی کی مسلم دشمن پالیسیوں کی وجہ سے ریاستی ادارے بھی مسلمانوں کے حوالے سے سخت رویہ اپنائے ہوئے ہیں ناصرف مسلمانوں کو ڈائریکٹ ان ڈائریکٹ ہر لحاظ سے مسائل کا سامنا ہے۔ مسلمانوں کے حوالے سے آواز بلند کرنے والوں کے خلاف بھی کارروائیاں جاری ہیں۔ کشمیر میں مسلمانوں پر ظلم و تشدد پر خاموشی اختیار کرنے والی دنیا بھارت میں بھی مسلمانوں پر تشدد کے خلاف خاموشی اختیار کیے ہوئے ہے۔ گذشتہ دنوں بھارتی ریاست تریپورہ میں انتہا پسند ہندوؤں کی طرف سے مسلمانوں پر تشدد اور جلاؤ گھیراؤ کے واقعات ہوئے تھے ان واقعات کی ویڈیوز سامنے لانے والی دو خواتین صحافیوں کے خلاف ہندو انتہا پسند جماعت وشوا ہندو پریشد کی درخواست پر مذہب کی بنیاد پر دشمنی کو فروغ دینے کے مقدمات درج کیے گئے ہیں۔ دلچسپ امر یہ ہے کہ نریندرا مودی کی حکومت مذہب کی بنیاد پر تشدد کرنے، مساجد کو نقصان پہنچانے، مساجد کو شہید کرنے والوں کی سرپرستی کر رہی ہے جب کہ ان مظالم کے خلاف آواز بلند کرنے والوں کے خلاف مقدمات درج کیے جا رہے ہیں۔ ریاست تریپورہ میں ہندو انتہا پسندوں نے مساجد کی بے حرمتی کی جبکہ مسلمانوں کی املاک کو نذر آتش کر دیا گیا۔ انسانی حقوق کی تنظیمیں پاکستان میں کسی بھی طے شدہ منصوبے کے تحت ہونے والے واقعات کے خلاف بھی بہت شور مچاتی ہیں جب کہ بھارت میں ناصرف مسمانوں کو مذہب ہی بنیاد پر نشانہ بنائے جانے اور ان مظالم کو سامنے لانے والوں پر مقدمات درج کیے جانے ہے باوجود دنیا نے خاموشی اختیار کر رکھی ہے۔ دہشت گردوں کی مالی معاونت اور سرپرستی میں بھی بھارت نمایاں نظر آتا ہے لیکن اس کے باوجود عالمی اداروں نے بھی انکھیں بند کر رکھی ہیں۔ تمام پابندیاں اور سختیاں صرف پاکستان کے لیے ہی ہیں۔ حالانکہ پاکستان نے دنیا کو پرامن بنانے کے کیے بے پناہ قربانیاں دی ہیں لیکن اس کے باوجود عالمی ادارے اور عالمی طاقتیں پاکستان کے ساتھ تعصب کا مظاہرہ کر رہی ہیں۔ نریندرا مودی کی ہندوتوا کی پالیسی کی وجہ سے خطے کے امن کو شدید خطرات لاحق ہیں۔ جب تک بھارت پر نریندرا مودی کا قبضہ ہے اس وقت تک خطے کا امن اور بھارت کے کروڑوں انسانوں کا مستقبل خطرے میں ہے، ان کی جان و مال کو شدید خطرات لاحق ہیں۔
میں بھارت پر قابض انتہا پسندوں بارے لکھ رہا تھا کہ سندھ سے ایک ایف آئی آر موصول ہوئی۔ مبینہ طور یہ بھی قبضے کا معاملہ ہے۔ یہاں بھی جو طاقت، اختیار اور اقتدار میں ہوتا ہے اس کا جہاں داؤ لگتا ہے وہ زمین ہتھیانے، پیسہ دبانے کی کوشش کرتا رہتا ہے۔ ابھی مجھے ایک درخواست موصول ہوئی ہے درخواست گذار کے مطابق سندھ کے بااثر افراد اس کی زمین پر قبضہ کرنا چاہتے ہیں۔
جناب والا !
گزارش ہے کہ درخواست گذار کا تعلق ایک غریب خاندان ہے اور ہاری سکیم کے تحت 2001 میں 16 ایکڑ زمین الاٹ ہوئی جس کے تمام تر کاغذات ہمارے پاس موجود ہیں۔ اور عرصہ دارز سے اس پر کاشت کاری کر رہے ہیں اور زمیں کے مالکان میں سے ہیں۔ تاہم پولیس نے مقامی شخص فیصل مقصود ولد مقصود احمد جو پی پی کا ٹاوٹ ہے اور زمیں پر ناجائز قبضہ کرنا چاہتا ہے کہ ایما پر ہماری چادر اور چاردیواری کی حرمت کو پھلانگ کر خواتین کو گالیاں دی اور گھر سے لائسنس یافتہ اسلحہ اور سونا زبردستی ہتھیا لیا اور اس کے بعد الٹا ایف آئی آر ہمارے خلاف کاٹ دی۔ جب کہ ایف آئی آر میں نامزد 6 سے تین ہمارے افراد اس وقت ڈیوٹی پر موجود تھے۔ جن کی حاضری چیک کروائی جاسکتی۔
برائے مہربانی ہمارے خلاف مذکورہ ایف آئی آر کو خارج کروا کر ہمیں انصاف دلایا جائے۔ اور پولیس اہلکاروں کے خلاف کاروائی کی جائے۔
ضلع شہید بے نظیر آباد، تعلقہ ڈاور، پولیس اسٹیشن 60 میل، گاؤں چک نمبر 6، ابھاری ساوری ڈاک خانہ چک نمبر 5
درخواست گذار
محمد انیس ولد محمد یاسین جٹ
جب یہ درخواست پڑھی تو ناقص کارکردگی پر لاہور سے سترہ ایس ایچ اوز کی معطلی کی خبر سامنے تھی۔ ڈی جی آپریشنز نے ناقص کارکردگی سور جرائم رجسٹرڈ نہ کرنے پر سترہ ایس ایچ اوز کو معطل کر دیا ہے۔ سٹی ڈویژن سے ایس ایچ او داتا دربار، شاہدرہ، نیو انار کلی،بادامی باغ، لاری اڈہ، کینٹ ڈویژن سے باغبانپورہ، ڈیفنس اے، فیکٹری ایریا، غازی آباد، ماڈل ٹاؤن سے کاہنہ، کوٹ لکھپت، نشتر کالونی، صدر ڈویژن سے جوہر ٹاؤن، گرین ٹاؤن، چوہنگ، اقبال ٹاؤن سے ساندہ اور شیرا کوٹ کے ایس ایچ اوز کی معطلی کے احکامات جاری کیے گئے۔ اب یہ صورت حال صرف لاہور کی ہے۔ پولیس خواہ کسی بھی صوبے سے ہو ہر جگہ ایک سے حالات نظر آتے ہیں۔ جرائم پیشہ افراد سرکاری، سیاسی پشت پناہی کے بغیر کچھ نہیں کر سکتے۔ سندھ میں پولیس مبینہ طور پر قبضہ گروپوں کے ساتھ ملی ہوئی ہے تو لاہور میں بھی حالات کچھ مختلف نہیں ہیں۔ جہاں کہیں بھی اختیارات کا ناجائز استعمال ہو گا وہاں بدامنی ہو گی، اربابِ اختیار جب انصاف نہیں کریں گے تو معاشرے میں انتشار پھیلے گا۔ یہ قانون کسی ایک علاقے یا ملک کے لیے نہیں ہے۔ جہاں بھی قوانین کی خلاف ورزی ہو گی وہاں خون خرابہ ہو گا۔