ریاست کے حقوق اوراچھا شہری
مغرب میں زندگی بڑی آسان ہی نہیں پرتعیش نظر آتی ہے۔ کئی ممالک کو توحکومت کی طرف سے شہریوں کو دی جانیوالی مراعات اور ان کیلئے دستیاب سہولیات کو دیکھتے ہوئے لوگ جنت نظیر بھی کہتے ہیں۔ میری زندگی کا طویل عرصہ یورپی ممالک اور کینیڈا میں گزرا ہے۔ یہ ممالک بلاشبہ اپنے قدرتی منظروں اور اپنے تخلیق کردہ مرکزوں ، شاہراہوں اور سیرگاہوں کے باعث خوبصورتی میں بھی مثالی ہیں۔ عوام خوشحال ہیں، حکومتیں جمہور کی منتخب کردہ اور جمہور کو جواب دہ ہیں۔ کئی ممالک بے شمار وسائل سے مالامال ہیں اور بہت سے ایسے بھی ہیں جو وسائل تو اتنے زیادہ نہیں رکھتے لیکن انکی طرف سے بھی عوام کو وہی سہولتیں دی جاتی ہیں جو کوئی بھی ترقی یافتہ اور امیر ترین ملک اپنے لوگوں کو دے سکتا ہے۔ کیا یہ سہولتیں اور مراعات قرض لے کر دی جاتی ہیں۔ اس پر بعد میں بات کرتے ہیں پہلے ذرا سہولیات اور مراعات کا جائزہ لے لیں۔ ہر شہری کی تعلیم اور صحت کے معاملات ریاست کے ذمے ہیں۔ تعلیم ان ممالک میں اپنے شہریوں کیلئے سستی ہے۔ بیرون ممالک سے آنے والوں کیلئے مہنگی ہے۔ کتنی مہنگی ہے؟ اتنی مہنگی ہے کہ پاکستان کے 22گریڈ کے بیوروکریٹس اور ایماندار وزرا اور مشیر بھی اپنے بچوں کو ان ممالک میں نہیں پڑھا سکتے۔ ایک وفاقی وزیر کا بیٹا کینیڈا میں زیر تعلیم تھا۔ ایک موقع پر اس نے مجھ سے بھاری رقم ادھار لی تھی سالانہ فیس کی ادائیگی کیلئے ۔ اسی طرح ہر شہری کو علاج کی فری سہولت ہے۔ ریٹائرمنٹ پر کئی ممالک میں شہری کو گھر تک بھی دیا جاتا ہے۔ ان ممالک میں بھی غریب لوگ ہیں، بیوائیں بھی ہیں، بیروزگار بھی ہیں۔ انکے گھر تک روزانہ اور ہفتہ کی بنیاد پر راشن پہنچا دیا جاتا ہے۔ آزاد معاشرہ ہے،پڑھے لکھے لوگ ہیں، مقدمات نہ ہونے کے برابر ہیں، انصاف میں کبھی تاخیر نہیں ہوتی۔ ٹرانسپورٹ سستی ہے، گاڑیاں آسان قسطوں پر مل جاتی ہیں۔ جب ہم ان ممالک کے شہریوں کو دستیاب سہولتوں کو دیکھتے ہیں تو یقینا رشک آتا ہے۔ کاش ہمارے ملک میں بھی یہ سب ہو سکے۔ ایسا ناممکن نہیں ہے، عین ممکن ہے ۔ جن ممالک میں یہ سب سہولیات دی جاتی ہیں وہ سب ریاست اپنی جیب سے نہیں دیتی۔مراعات اس ٹیکس کی بدولت دی جاتی ہیں جو شہری اپنی آمدن پر ادا کرتے ہیں۔ ان سے ٹیکس جبری وصول نہیں کیا جاتا۔ ہر ٹیکس گزار برضا و رغبت ادا کرتا ہے۔ ہمارے ہاں ٹیکس کا رواج ہی نہیں ہے۔ 30ہزار سے زائد آمدنی پر ٹیکس لاگو ہے۔ ایسے کتنے لوگ ہیں جو ٹیکس ادا کرتے ہیں؟ سب سے زیادہ ٹیکس گزار سرکاری ملازم ہیں وہ بھی انکی تنخواہوں سے کٹوتی کی جاتی ہے ورنہ تو وہ ان میں سے بھی بہت ڈنڈی مار جائیں۔ ایسے تاجروں کی تعداد لاکھوں میں ہے جو اربوں روپے کا کاروبار کرتے ہیں۔ کروڑوں کا کاروبار کرنے والے تو کئی کروڑ ہوں گے مگر ٹیکس ادا کرنیوالے صرف 25لاکھ لوگ ہیں۔ میں نے شہریوں کیلئے جن مراعات کی بات کی پاکستان میں ہر وہ شہری ایمانداری سے ٹیکس ادا کرے جس پر ٹیکس لاگو ہوتا ہے تو یقین کریں پاکستان بھی جنت نظیر بن سکتا ہے۔ تعلیم اور صحت کی سہولت ہر شہری کیلئے فری دستیاب ہو سکتی۔ من و سلوی کی طلب ضرور کریں، پہلے اس کا اہتمام ٹیکسوں کی صورت میں ضروری ہے۔ ٹیکس ہم لوگ دیتے نہیں توقع رکھتے ہیں کہ ریاست ہر ممکن سہولت مع لڑائی جھگڑوں، جائیداد کے تنازعات کے مقدمات بھی اپنے خرچ پر لڑے۔
قارئین !یہاں میں کچھ حقیقتوں کی وضاحت کر دینا اپنا فرض اولین سمجھتا ہوں کہ میری تحریر کا اوپر والا حصہ پڑھ کر آپ یقینا سوچ رہے ہوں گے کہ اگر یورپ اور امریکہ میں ٹیکس گزار کو یہ سب کچھ ملتا ہے تو پھر پاکستان کی حکومت ٹیکس گزاروں کو یہ مراعات کیوں نہیں دیتی۔ اس سوال کے جواب میں یہ بات یقینا پیش کی جا سکتی ہے کہ یورپین اور نارتھ امریکن معاشرے نے اپنی آبادی پر مکمل کنٹرول رکھا ہے۔بیشتر مغربی خاندانوں میں صرف ایک بچے پر ہی اکتفا کیا جاتا ہے۔ میں یورپی اور نارتھ امریکہ کے چند امیر ترین خاندانوں کو ذاتی طور پر جانتا ہوں اور پچھلے 38سال سے یورپین معاشرے کا حصہ ہوں۔ میں نے ماسوائے چند ایک خاندانوں کے جن کے دو بچے ہیں زیادہ تر فی خاندان ایک بچے ہی کو دیکھا ہے مگر پاکستان میں جب یہ سوال آپ کسی امیر یا غریب سے کریںتو جواب میں ایک رٹا رٹایا سا فقرہ سننے کو ملتا ہے کہ ’’رزق تو اللہ تعالی کیڑے کو بھی پتھر میں دے دیتا ہے اور جو پیدا ہوتا ہے وہ اپنا رزق ساتھ لے کر آتا ہے۔‘‘
قارئین!مذہبی حقیقتوں سے اختلاف اور انحراف ممکن نہیں مگر ریاست کا ہر ذمہ دارشہری اپنی معاشی حیثیت کے مطابق اپنی فیملی کا سائز بڑھائے تو یقینا ریاست پاکستان بھی آپکے ٹیکس کے عوض آپکو مغربی معاشرے جیسی سہولتیں مہیا کر سکتی ہے۔