سو ہے یہ بھی آدمی
ڈاکٹر خالد رانجھا ملک کے فوجداری کے چوٹی کے وکیلوں میں شمار ہوتے تھے وقت گزرنے کے ساتھ وہ ایک زیرک آئینی ماہر کے طور پر بھی ابھر کے سامنے آئے ، سابق وزیراعظم بے نظیر بھٹو کے دور حکومت میں ایڈووکیٹ جنرل پنجاب اور پھر لاہور ہائی کورٹ کے جج لگے ، شخصی طور پر ایسے عوامی مزاج کے حامل کہ انکی ’’ججی‘‘ کے دوران جب بھی ان سے چیمبر میں ملنا ہوا ، اس بے تکلفانہ انداز میں روزمرہ کی پنجابی میں بات کرتے کہ لگتا گاؤں کی چوپال میں بیٹھے گپ شپ کر رہے ہیں ، ایک بار انہوں نے لاہور ہائی کورٹ بار کے،’’بوہڑ والے لان‘‘ میں مرحوم ایم ڈی طاہر کے’’اڈے‘‘ پر میرے ساتھ گپ شپ کر رہے تھے ، اعلیٰ عدالتوں کا جج لگانے کے پیمانے پر بات ہو رہی تھی تو رانجھا صاحب نے بڑی خوبصورت بات کہی۔ بولے ’’جج کی بنیادی کوالیفیکیشن یہ ہے کہ اسے جج لگنے کی خواہش نہ ہو۔‘‘بجا طور پر جج ، جرنیل اور جرنلسٹ میں سے پہلے دو پیشوں کا شمار اگرچہ ان خدمات میں ہوتا ہے جن کے لئے ریاست کی ملازمت میں آنا پڑتا ہے تاہم ڈاکٹری اور صحافت کی طرح ’’ججی‘‘ اور ’’جرنیلی‘‘ بھی ان مقدس کاموں میں شامل ہیں جو صرف جذبے سے انجام دیے جا سکتے ہیں ، صحافت کو تو ویسے بھی پیغمبری پیشہ کہا جاتا ہے اور پڑھے لکھے معاشروں یعنی مہذب یا ترقی یافتہ ملکوں میں صحافت صرف اور صرف نجی شعبہ میں کی جاتی ہے ، تبھی ایک صحافی مکمل طور پر آزاد اور غیر جانبدار رہ سکتا ہے ، تبھی یہاں محترم نصرت جاوید جیسے جینوئن صحافی آئے روز 'نوکری' سے باہر ہوتے ہیں. حال ہی میں ہمیں چھوڑ جانے والے رحیم اللہ یوسف زئی اور جناب ضیاء الدین کی طرح قابلیت اور پیشہ وارانہ کردار کے حوالے سے اگرچہ جناب نثار عثمانی اور اس سے پچھلی نسل کے صحافیوں کی ایک طویل فہرست ہے جنہیں اپنے قابل رشک کردار کی بنا پر رول ماڈل کہا جا سکتا ہے مگر بالخصْوص بنیادی طور پر لاہور سے تعلق رکھنے والوں میں سے روزنامہ مساوات والے اعجاز رضوی کے بعد حیات صحافیوں میں محترم نصرت جاوید اور شاہد ملک (بی بی سی والے) جیسا صحیح معنوں میں پڑھا لکھا اور کامل ’’نیوز مین‘‘ مَیں نے اور نہیں دیکھا۔پاکستان میں صوتی بصری ذریعہ اظہار سرکاری شعبے سے شروع ہوا ، سرکاری ریڈیو کے بعد پی ٹی وی کی صورت میں ہم آڈیو وژوئل میڈیم سے متعارف ہوئے مگر ریڈیو پاکستان کی طرح پی ٹی وی بھی پروگرامنگ کی بنا پر ناظرین کی توجہ حاصل کر پایا مطلب اس کے ڈراموں اور فنون لطیفہ سمیت غیر سیاسی شوز عوامی مقبولیت کا مرکز ٹھہرے. سرکاری ٹی وی نے جب ’’کرنٹ افیئرز‘‘ کو چھوا تو عوامی مسائل کے حوالے سے اس کا پہلا ہی 'سٹریٹ شو' مقبولیت کا ریکارڈ قائم کر گیا ، یہ تھا پی ٹی وی لاہور سنٹر کے تخلیقی صلاحیتوں کے حامل پروڈیوسر سلیم طاہر کا ’’میں اور آپ‘‘ اسی طرح پی ٹی وی کے ٹاک شوز میں پاکستان ٹائمز والے محمد ادریس کا شو پہلا لائیو شو تھا ، یہ اتنا جاندار شو تھا کہ اپنی مثال آپ رہا . جنرل پرویز مشرف دور میں نجی شعبے میں جب "کراس میڈیا" یعنی اخباری مالکان کو نیوز چینل کھولنے کی اجازت ملی تو انگریزی روزنامے ’’بزنس ریکارڈر‘‘ والوں کے ’’آج‘‘ ٹی وی پہ اس پائے کا کوئی پہلا شو دیکھنے کو ملا اور یہ تھا ’’استاذ‘‘ نصرت جاوید کا ’’بولتا پاکستان‘‘ محمد ادریس کے شو جتنا ہی بے باک ، دوٹوک اور برملا مگر ملک کو آزاد الیکٹرانک میڈیا یعنی نجی شعبے میں ٹی وی نیوز چینل کھولنے کی اجازت دینے والا یہی ڈکٹیٹر نصرت جاوید سے اتنی نفرت کرتا تھا کہ نہ صرف یہ کہ اس نے استاذ نصرت جاوید کو کبھی انٹرویو نہیں دیا بلکہ وہ 2007ء کی ’’ایمرجنسی پلس‘‘ کے دوران آف ایئر کئے جانے والے ٹی وی اینکر کی صف اول میں شامل تھے بلکہ جنرل پرویز مشرف نے ایوان صدر میں ناپسندیدہ ٹی وی اینکر کے ٹاک شوز بالخصوص استاذ نصرت جاوید کا شو مانیٹر کرنے کیلئے اپنے ملٹری سیکرٹری لیفٹیننٹ جنرل حامد جاوید کی قیادت میں 6 افراد کا ایک خصوصی سیل بنایا ہوا تھا۔نصرت جاوید کا ’’بولتا پاکستان‘‘ بنیادی طور پر ریڈیو پاکستان لاہور پر تاریخی اور نہائت مقبول عوامی ٹاک شو ’’جمہور دی آواز‘‘ کی طرز پر ڈیزائن کیا گیا تھا جس میں ’’نظام دین’’ اور قائم دین کی صورت میں ایک قدرے گھاگ اور دوسرا ایک قدرے سادہ لوح شخص کے کردار شامل تھے. جناب رشید حبیبی کے لکھے اس دلچسپ عوامی شو میں ’’نظام دین‘‘ کا کردار مرزا سلطان بیگ اور ’’قائم دین‘‘ کا کردار خود رشید حبیبی ادا کرتے تھے جبکہ ’’بولتا پاکستان‘‘ میں ابتدا میں یہی کردار بالترتیب استاذ نصرت جاوید اور مشتاق منہاس نبھاتے تھے۔جرات مند صحافت کی مثال وہ واحد قومی اخبار جس نے مارشل لاء ادوار میں بھی تاریخی کردار ادا کیا اور جو طاقت کا قانون مسلط کرنے والوں کی طرف سے اتار لی گئی خبروں کی خالی جگہوں کے ساتھ شائع ہوتا رہا ، اور جسکے مالکان نے اپنے مقدس مشن اور پیشے بارے کبھی یہ نہیں کہا ’’یہ تو میرا بزنس ہے ‘‘ اپنے پورے پیشہ ورانہ کیرئیر میں سچ لکھنے اور حق بات برملا کہنے والے ہم سب کے نصرت جاوید نے اپنا کالم لکھنے کے لئے بالآخر اسی اخبار کا انتخاب کیا۔