• news

پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس ، تقریری مقابلوں سے زیادہ کچھ نہیں

تجزیہ:محمد اکرم چودھری
پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس تقریری مقابلوں سے زیادہ کچھ نہیں، وزراء اور اپوزیشن رہنما ایک دوسرے پر برستے رہے، سب ایک دوسرے کو برا بھلا بھی کہتے رہے، سب ایک دوسرے پر کیچڑ اچھالتے رہے اور وہ سب جو پارلیمنٹ کو سب سے مقدس سمجھتے ہیں وہی پارلیمنٹ کی تضحیک کرتے دکھائی دیے۔ پارلیمنٹ کا مشترکہ سیشن روایتی سیاسی انداز میں ہوا۔ سیاست دانوں کا ایک دوسرے پر الزامات لگانے اور ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کے سوا کوئی ایجنڈا نہیں تھا۔ اس سیشن کو دیکھ کر کیا کوئی باشعور شخص یہ توقع کر سکتا ہے کہ یہ لوگ ملک و قوم کی تقدیر بدل دیں، کیا یہ سب مل کر ملک کو بحرانوں سے نکالیں گے، کیا یہ سب مل کر پاکستان کو ترقی یافتہ بنائیں گے، کیا یہ سب مل کر پاکستان کے غریب لوگوں کے مسائل حل کریں گے، کیا پارلیمنٹ لڑائی جھگڑوں کے لیے ہے، کیا منتخب نمائندوں کو اس کے سوا بھی کچھ آتا ہے۔ یہ سب اپنی ذات میں پارلیمنٹ کی توقیر میں اضافے کے سب سے بڑے دعویدار ہیں۔ یہ حکومت کا چوتھا سال ہے نہ وہ اپوزیشن کے ساتھ تعلقات کو بہتر بنا سکی اور نہ ہی اپوزیشن نے ماضی کی غلطیوں سے سیکھا ہے۔ یہ ہمارے قائدین ہیں انہوں نے قوم کی تربیت کرنی ہے، انہوں نے قوم کو تہذیب سکھانی ہے، انہوں نے قوم کو قوانین پر عمل کا سبق دینا ہے، انہوں نے قوم کو قواعد و ضوابط کی پاسداری کا درس دینا ہے۔ اگر یہ ایسے ہی قوم کی تربیت کریں گے تو پاکستان میں کبھی جمہوری رویے فروغ نہیں پا سکتے۔ ایسے مشترکہ سیشنز کے بعد اگر گلی گلی سیاسی کارکنان دست و گریباں ہوں تو کس کو الزام دیا جائے گا۔ سب سے بڑھ کر عوامی مسائل کو جس بے رحمی سے نظرانداز کیا گیا ہے وہ سیاست دانوں کا عوام سے لاتعلقی کا سب سے بڑا ثبوت ہے۔ پارلیمنٹ عام آدمی کے لیے بنی ہے تاکہ عام آدمی کے مسائل حل ہو سکیں۔ اسے سکون کا سانس ملے لیکن یہاں تو مشترکہ اجلاس کی کارروائی دیکھ کر اوپر کا سانس اوپر اور نیچے کا نیچے رہ جاتا ہے۔ کاش کہ پارلیمنٹ کی عزت میں اضافے کے لیے سب اپنی ذمہ داری کا احساس کریں اور دوسروں پر الزام دینے کے بجائے ہر رکن اسمبلی اپنے گریبان میں جھانکے کہ اس نے کیا کر دیا ہے۔

ای پیپر-دی نیشن