رمیز راجہ کی سمت، جوش و جذبہ اور برہمی!!!
پاکستان کرکٹ بورڈ کے نئے چیئرمین ہر گذرتے دن کیساتھ پرانے تو ہو رہے ہیں لیکن ان کا جوش و جذبہ کم نہیں ہو رہا نہ ہی ماضی کے حکمرانوں پر ان کا غصہ کم ہو رہا ہے۔ اب تک انہوں نے بین الاقوامی سطح پر پاکستان کا موقف بہت عمدگی کیساتھ پیش کیا ہے۔ بالخصوص نیوزی لینڈ اور انگلینڈ ہے پاکستان میں نہ کھیلنے کے فیصلے پر رمیز راجہ کا ردعمل ہر پاکستانی کی آواز تھا۔ اپنی پہلی پریس کانفرنس سے لے کر اب تک ہر موقع پر انہوں نے نچلی سطح کی کرکٹ کو بہتر بنانے کے حوالے سے ضرور بات کی ہے۔ رمیز راجہ کی یہ سوچ بہرحال حوصلہ افزا ہے کیونکہ جب تک نچلی سطح کی کرکٹ کو بہتر نہیں بنایا جائیگا اس وقت تک بہترین ٹیلنٹ کا سامنے آنا مشکل ہے۔ اس وقت جتنے بھی کھلاڑی ملک کی نمائندگی کر رہے ہیں یہ اس نظام سے سامنے آئے تھے جسے احسان مانی اور وسیم خان نے ناکارہ کہہ کر بند کر دیا تھا ناصرف اس نظام کو بند کیا بلکہ اس کیساتھ ساتھ تین سال تک ملک میں ہر سطح کی کرکٹ کو بند کر کے ہزاروں کھلاڑیوں کو میدانوں سے دور کر دیا۔ اگر ان لوگوں نے کام کیا ہوتا تو رمیز راجہ کو یہ کبھی نہ کہنا پڑتا کہ کس حال میں کرکٹ چھوڑ کر گئے ہیں، یہ میرے ساتھ زیادتی ہے۔
رمیز راجہ نے میڈیا سے سکول کرکٹ کو نمایاں کرنے کی درخواست بھی کی ہے، وہ قائد اعظم ٹرافی کے غیر فیصلہ کن رہنے والے میچوں پر بھی پریشان ہیں، انہیں پچز کی خرابی کا غم بھی کھائے جا رہا ہے اس دوران کلب کرکٹ میں ہونے والی بدانتظامی بھی یقیناً ان کے علم میں ہو گی۔ اصل مسئلہ تو یہ ہے انہیں بحیثیت چیئرمین ان تمام خرابیوں کو دور کرنا ہے، انہیں اپنے شعبہ ڈومیسٹک سے ضرور پوچھنا چاہیے کہ رواں سال کے کرکٹ سیزن کیلئے کیا تیاری کی گئی تھی، پچز کے حوالے سے کیا میٹنگز ہوئیں، کس نے کیا آرڈر دیے۔ واقفان حال تو یہ بھی بتاتے ہیں کہ شعبہ ڈومیسٹک والے تو ایمرجنسی میں وکٹیں بنواتے ہیں، کسی کو اچانک کچھ یاد آتا ہے تو حکم جاری ہو جاتا ہے۔ مختلف گراونڈز کا سامان کون کہاں اور کیوں استعمال کرتا رہا ہے اس کی تفتیش بھی ضروری ہے۔ ہو سکے تو چیئرمین کرکٹ بورڈ کو شعبہ ڈومیسٹک سے ضرور پوچھنا چاہیے کہ کس کے خلاف کیا شکایات جمع ہیں۔
بین الاقوامی کرکٹ کے حوالے سے اب تک رمیز راجہ درست سمت میں کام کر رہے ہیں۔ وہ پاکستان کا کیس بہتر انداز میں پیش کرتے ہوئے نظر آ رہے ہیں۔ نیوزی لینڈ اور انگلینڈ کے بعد بھارت کے حوالے سے بھی بات کرتے ہوئے وہ کمزور دکھائی نہیں دیتے بلکہ اس حوالے سے حقیقت پسندانہ بات کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ جہاں تک تعلق سٹیڈیمز کی اپ گریڈیشن کا ہے پشاور سٹیڈیم کی تعمیر نو کے معاملے پر سابق چیئرمین اپنے دور میں صرف ایک مرتبہ وہاں گئے اور وہ دورہ بھی گورننگ بورڈ کی میٹنگ میں شرکت کی غرض سے تھا۔ جب چیئرمین اس حد تک لاتعلق رہے تو بنیادی ڈھانچے کو تباہی سے کون روک سکتا ہے۔
رمیز راجہ کا جوش و جذبہ برقرار رہنا خوش آئند ہے لیکن انہیں یہ ضرورذ ہن میں رکھنا چاہیے کہ تین سال میں بنیادی ڈھانچہ تباہ ہو کر رہ گیا ہے ان پر ذمہ داری اور توقعات ماضی کے عہدے داران سے زیادہ ہے۔ کھلاڑیوں کے معاشی مسائل میں اضافہ ہوا ہے۔ نئے منصوبے ضرور شروع کریں لیکن اس سے پہلے موجودہ نظام میں موجود خامیوں کو دور کرتے ہوئے کھیل کے مواقع بڑھانے اور معیار کو بلند کرنے کیلئے فیصلے کرنے کی ضرورت ہے۔ وہ طویل دورانیہ کی کرکٹ کا فروغ اور دلچپسی میں اضافے کے خواہش مند ہیں اس کیلئے جونیئر لیول پر ٹی ٹونٹی کرکٹ کے بجائے اسی طرز کی کرکٹ پر توجہ دیں۔ ان تمام کاموں کیلئے انہیں متعلقہ شعبوں کے افسران کی کارکردگی کا بھی جائزہ لینا ہو گا۔ کیا تباہی کے دور میں چپ چاپ دستخط کرنیوالے تعمیری کام کر سکتے ہیں۔