حکومت اور اپوزیشن میں لفظی جنگ:انتخابات ووٹنگ مشین سے کرانے کے پابند نہیں
اسلام آباد، کراچی (خبر نگار+ نمائندہ خصوصی) وزیر اعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ نے کہا ہے کہ وفاقی حکومت نے ملک میں جمہوریت کو نقصان پہنچانے کے لیے پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں الیکٹرانک ووٹنگ مشین (ای وی ایم) سے متعلق بل منظور کرایا۔ صوبائی کابینہ کے اجلاس کے بعد وزیر اعلیٰ سندھ نے پریس کانفرنس کے دوران کہا کہ کل قومی اسمبلی کے اجلاس میں ایک قانون منظور کروایا گیا، جس کے تحت دھاندلی کی جائے گی، قومی اسمبلی میں موجود الیکٹرانک ووٹنگ مشینز خراب ہیں اور ملک میں انتخابات کے لیے ای وی ایمز کا بل منظور کیا گیا۔ ان کا کہنا تھا کہ انہیں یہ بھی نہیں معلوم کہ ان کے اسمبلی میں کتنے ارکان موجود ہیں، یہ بل اس ملک میں جمہوریت کو نقصان پہنچانے کے لیے منظور کیا گیا ہے۔ ایک سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ اگر آئندہ انتخابات میں ای وی ایم کا استعمال ہوتا ہے تو انہوں نے جن نشستوں پر کامیابی حاصل کی ہے وہ بھی نہیں ملیں گی۔ مراد علی شاہ نے آگاہ کیا کہ کابینہ کے اجلاس میں فیصلہ کیا گیا ہے کہ جو چار افسران آپ نے سندھ سے بلانے کی بات کی ہے وہ تجویز کابینہ مسترد کرتی ہے اور آپ کی طرف سے بھیجے جانے والے چار افسران کو کابینہ قبول کرتی ہے اور مزید افسران کو بھیجا جائے۔ وزیر اعلیٰ سندھ نے کہا کہ میں وفاقی حکومت کو خبردار کرتا ہوں کہ آپ کا جھگڑا میرے ساتھ ہے افسران کو تنگ نہ کریں۔ انہوں نے کہا کہ جب مردم شماری کی گئی تو سندھ میں فی گھر میں افراد کی تعداد کم کردی گئی، ہماری مجموعی آبادی 6 کروڑ سے زائد ہے آپ نے 4 کروڑ 80 لاکھ سے بھی کم کردی ہے، یہ ایک اہم وجہ ہے سوال اٹھانے کی۔ شیری رحمان نے کہا ہے کہ حکومت نے مشترکہ اجلاس میں 33 بل بلڈوز کر کے پارلیمان کی توہین کی، آئین اور پارلیمانی قواعد و ضوابط کا کھل کر مذاق اڑایا گیا۔ نائب صدر پاکستان پیپلز پارٹی و سینیٹر شیری رحمان نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ پر ٹویٹ کرتے ہوئے کہا کہ کل کا دن پاکستان کی پارلیمانی تاریخ کے سیاہ ترین دنوں میں شامل ہوگا، طاقت اور مصنوعی اکثریت کا بدترین مظاہرہ دنیا نے دیکھا، ثابت ہو چکا سپیکر پارلیمان کے کسٹوڈین نہیں ایک جماعت کے نمائندے ہیں، اتحادیوں کی جبری حاضری اور مشاورت کے بغیر قانون سازی اب متنازعہ ہو چکی ہے۔ شیری رحمان کا کہنا تھا کہ الیکشن کمیشن 2010 سے ای ووٹنگ مشین پر اپنے خدشات کا اظہار کر رہا ہے، قوم اور الیکشن کمیشن پر الیکٹرانک ووٹنگ مشین مسلط کی جا رہی ہے۔ احسن اقبال نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ جرمنی جیسے ملک نے بھی ای وی ایم کو مسترد کردیا۔ ان کی عدالت نے کہا کہ اس سے ووٹ کی رائے خفیہ نہیں رہ سکتی۔ سینیٹر رضا ربانی نے اپنے بیان میں کہا ہے کہ پارلیمنٹ کو فاشسٹ ایجنڈا فروغ اور تحفظ دینے کیلئے استعمال کیا جارہا ہے۔ پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس سے 3 پیغام دیئے گئے۔ پاکستانی عوام کو آئینی حق سے محروم کیا گیا کہ حکمران ان کے منتخب کردہ ہوں۔ پارلیمنٹ نے دشمن جاسوس کو ریلیف فراہم کرنے کی قانونی سازی کی، بغیر اتفاق رائے کے انتخابی اصلاحات سے اگلے عام انتخابات کو متنازعہ بنا دیا۔ موجودہ حکومت الیکشن عمل میں صرف ایک شراکت دار ہے۔ یہ عمل پاکستان کو فاشسٹ ریاست بنانے کیلئے ہے۔ کلبھوشن کو فوجی عدالت نے پاکستان کیخلاف سازش اور دہشت گرد سرگرمیوں پر سزا سنائی۔ کلبھوشن سے متعلق قانون سازی نہ صرف آئین کی خلاف ورزی بلکہ ریاست مخالف بھی ہے۔ حکومت کا موقف ہونا چاہئے تھا عالمی عدالت کا فیصلہ آئین و قانون کیخلاف اور عالمی عدالت کے فیصلے پر عملدرآمد نہیں ہوسکتا۔ احسن اقبال نے مزید کہا ہے کہ کلبھوشن کو ایسے موقع پر این آر او دیا گیا جب بھارت کشمیر پر مظالم ڈھا رہا ہے، کشمیر کی اس بیٹی کو کیا جواب دیں جو باپ کے قتل پر دہائیاں دے رہی ہے، پاکستانی قوانین کے مطابق کلبھوشن ملٹری کورٹ کے فیصلے کیخلاف اپیل کرسکتا ہے۔ ووٹرز لسٹ الیکشن کمشن کے پاس آئین پاکستان نے دی ہے۔ اس فہرست کو نادرا منتقل نہیں کیا جاسکتا۔ چیئرمین نادرا موجودہ حکومت کی اگلی انتخابی مہم کیلئے نادرا کا ڈیٹا استعمال کر رہے ہیں۔ اسلام آباد میں متحدہ اپوزیشن کے قائدین سینیٹر شیری رحمن، شاہدہ اختر اور دیگر کے ہمراہ پریس کانفرنس کرتے ہوئے احسن اقبال نے مزید کہا کہ اگلے انتخابات کو 17 نومبر 2021 کی تاریخ ہی سے متنازع بنا دیا گیا ہے، الیکشن کمیشن کی آئینی ذمے داری ہے کہ وہ شفاف آزادانہ الیکشن منعقد کرے۔ کل الیکشن کمیشن کی سفارشات کو بلڈوز کردیا گیا۔پیپلز پارٹی کی سیکرٹری اطلاعات شازیہ عطا مری اور پاکستان پیپلز پارٹی کے سیکرٹری اطلاعات فیصل کریم کنڈی نے کہا ہے کہ ملک کو غیرجمہوری طریقے سے چلایا جا رہا ہے۔ عمران خان نے ملک اور پارلیمان کو مذاق بنا دیا ہے۔ کل پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس کو کالے قوانین پاس کرنے کے لئے استعمال کیا گیا جو قابل افسوس ہے۔ انہوں نے کہا کہ گذشتہ مشترکہ اجلاس بھی اراکین نہ ہونے کے بعد منسوخ ہوا تھا کیونکہ 30 سے 40 اراکین ان کے ہاتھ نہیں آرہے تھے۔