• news
  • image

گھر کب آئو گے ؟

آج میں لیٹ تھا لیکن وہ کوئی گلہ شکوہ کئے بغیر ہی خاموشی سے میرے سامنے کھانا رکھ کر اندر چلی گئی تھی۔معاملہ زیادہ خراب ہے میں نے سوچا۔یہ مسلسل دوسرا ہفتہ تھا جب میں آفس سے لیٹ گھر واپس آ رہا تھا۔معمول کے مطابق مجھے یقین تھا کہ گھر پہنچوں گا تو وہ دروازہ کھولنے سے پہلے مجھ سے گیارہ بارہ سوالات کرے گی۔پھر کہے گی کہ آئندہ اس ٹائم گھر آئے تو کھانا نہیں ملے گا۔پھر کھانا میرے سامنے رکھ کر منہ پھلا کے بیٹھ جائے گی اور انتظار کرے گی کہ میں کب اپنی معصومیت کی وکالت کروں اور سارا ملبہ آفس کے کام ، باس یا دوستوں یاروں پر ڈال دوں۔پھر میرے کہے بنا گرم گرم چائے کر دے گی اور بالکل نارمل ہو جائے گی جیسے کچھ ہوا ہی نہیں۔
لیکن آج ایسا نہیں ہوا۔آج اس کے لہجے میں کوئی شکوہ گلہ نہیں تھا۔آج اس کے وجود میں اک ٹھہراؤ تھا۔گویا کہ اس کے مان اس کے گلے شکوے شکایتوں نے ہار مان لی ہو۔لیکن ہم تو محبت میں اس ٹھہراؤ ، اس ہار سے پناہ مانگتے ہیں جناب۔محبت میں روٹھنا منانا ہی نہ ہوا تو پھر ریسٹورنٹ کے مینو کے اوپر لکھے آرڈر پر ملے کھانے اور گھر میں کچن میں جھانک کر فرمائش کئے گئے کھانے میں بھلا کیا فرق ہوا۔
میں آنکھیں موندے اس کی آنکھوں میں اپنے لئے انتظار کا انتظار کرنے لگا۔

epaper

ای پیپر-دی نیشن