تبدیلی یا کمزوری کا علاج
انسانی اور بشری کمزوری ایک اٹل حقیقت ہے لیکن اس کم زوری اور ضعف کو اپنا ہتھیار اور طاقت سمجھنا نہ صرف انفرادی بلکہ اجتماعی تباہی کا بھی پیش خیمہ ہے . دل کے لیے موت فقط مشینوں کی حکومت نہیں ہوتی بلکہ ضمیر کی کمزوری بھی کسی معاشرہ کے لیے سریع الاثر زہر سے کم نہیں۔ احساس مروت کو کچلنے کے لیے آلات کی کیا ضرورت , مذمتی اور غیر منصفانہ بیانات ہی کافی ہیں ۔ عام طور پر تو ضعف کے لغوی معانی ناتوانی، کمزوری، نقاہت,عدمِ استحکام اور ناپختگی کے لیے جاتے ہیں لیکن جدید لغت میں ناتوانی بمعنی عوام اور عدم استحکام بمعنی جمہوریت کے ہیں جس کا ظاہری کم زوری سے کوئی تعلق نہیں۔ جسمانی کم زوریاں بسااوقات کچھ اندرونی یا بیرونی فیکٹرز کی وجہ سے دماغی کمزوری میں بدل جاتی ہیں جس کا نقصان پوری قوم کو اٹھانا پڑتا ہے جس طرح مردانہ کمزوری کو چھپانے کے لیے کوئی شخص اپنی بیوی پر بانجھ پن کا الزام لگا دیتا ہے ایسے ہی حکومت اپنی نااہلی چھپانے کے لیے گذشتہ حکومت پر کرپشن اور غداری کے الزامات لگائے چلے جا رہی ہے اگرچہ اس سے افاقہ کی امید نہیں کیونکہ خود ہر حادثہ پر آنکھیں بند کر کے آنکھیں موندکر بیٹھے ارباب اختیار کی کم زوری ملٹی وٹامن سے بھی رفع ہونے کا امکان نہیں شیخوپورہ حادثہ اس کا واضح ثبوت ہے ریلوے کی کمزوری و ناہلی کو بیانات کی پھونکوں سے اڑایا نہیں جا سکتا ۔ روزانہ کی بنیاد پر ٹرانسفرز گویا بیوی کی تبدیلی کا عمل ہے جس سے اولاد کا امکان ہی نہیں جسمانی کمزوری کے علاج کے لیے دیواریں بھری پڑی ہیں لیکن ہمارا معاشرہ ایسی کم زوری میں مبتلا ہے جس کا انجکشن ارباب اختیار کو ہی لگایا جائے تو یہ کمزوری رفع ہو سکتی ہے کمزوری کا طاقت کے ساتھ بھی گہرا تعلق ہے۔ انصاف کی کم زوری ظالم کی طاقت کو دوام بخشتی ہے اور یہ کم زوری اگر طاقت کے اظہار پر آئے تو استاد کو ہاتھ باندھ کر اپنے سامنے کھڑا کر لیتی ہے۔شریف کی شرافت بدمعاشوں کو تقویت دیتی ہے ۔پنجابی میں کہتے ہیں ناں کہ شریف اپنی عزت توں اندر وڑیا , لچا سمجھیا میرے کولوں ڈریا ۔ویسے تو ہر وٹامن کی کمی سے کوئی نہ کوئی بیماری پیدا ہوتی ہے لیکن کچھ کمزوریاں ایسی بھی ہیں جو کسی وٹامن سے ختم نہیں ہو سکتیں ،کمزوری جسمانی ہی نہیں اس کی کئی اور اقسام بھی ہوتی ہیں۔ شادی بیاہ پر کھانے کی کمی جہاں خاندان بھر میں چہ مگوئیوں اور ناک کٹنے کا سبب بنتی ہے وہیں جہیز کی کمی توظالموں کے ہاتھوں زندگی کی ڈور ہی کاٹ دیتی ہے ۔ناک، کان اور دیگر اعضا کاٹنے کے لیے کمی نہیں بے وقوفانہ اور پتھر دلی طاقت کی زیادتی ہے۔طاقت کے مظاہروں کے اشتہارات بھی اکثر کمزوری کا ہی بیان ہیںصرف دیمک ہی نہیں سفید ہاتھی بھی ادارے کمزور کرنے کا سبب بنتے ہیں اور اس پہ مستزاد کہ مالی بے ضابطگیوں اور کرپشن کی کمزوری کو گروہی دفاع معجون سے بھی زیادہ تقویت پہنچاتا ہے ۔اخلاقی کمزوری کے اثرات وٹامن ڈی کی کمی سے بھی مہلک ہیں ۔افسوس تو یہ ہے کہ ہم ان کمزوریوں کو طاقت سمجھنے کی عادت ثانیہ میں مبتلا ہیں ۔مبتلائے محبت کی طاقت ہوس اقتدار کی کم زوری بن چکی ہے اور دفاعی محاذ پر بد کلامی و دشنام گوئی کے ٹانک بانٹنے کا رواج ہے ۔عوام کی کمزوری بے بسی سے بڑھ کر بے چارگی میں ڈھل گئی ہے لیکن حکومت اسے اپنی طاقت میں اضافہ سمجھ رہی ہے
غم وہ مے خانہ کمی جس میں نہیں
دل وہ پیمانہ ہے بھرتا ہی نہیں
موجودہ حکومت جس تبدیلی کے نعرے لگا کر میدان میں آئی تھی اب اس تبدیلی کی موٹر گاڑی کا پٹرول ختم ہو چکا ہے. عوام اس گاڑی میں پٹرول بھروا رہی ہے لیکن کمزوری کا شکار حکومت کک پر کک لگانے سے بھی کتراتی ہے۔ اب اس گاڑی کو دھکا لگانے والے بتائیں تبدیلی کے پٹرول کی کمی کس پمپ سٹیشن سے پورا ہو سکتی ہے۔ لمحوں کی کمزوری صدیوں تک رفع نہیں ہو سکتی۔ وٹامن کے کتنے ہی ڈبے بھی اس کم زوری کا علاج نہیں ۔ رہے نام اللہ کا!