بلوچستان کا بدلتا منظرنامہ
بلوچستان کے نئے وزیر اعلیٰ عبدالقدوس بزنجو نے ماضی کی حکومت میں سپیکر بلوچستان اسمبلی کے طور پر کام کیا ، اس سے پہلے بھی وہ سیاسی میدان میں موجود تھے۔ اب بطور وزیر اعلیٰ ان پر جو بھاری ذمہ داریاں عائد ہوئی ہیں ، دیکھتے ہیں وہ ان سے کس طرح عہدہ برا ہوتے ہیں۔ اتنے اتحادیوں کو ساتھ لے کر چلنا سرکس کی تنی ہوئی باریک رسی پر چلنے کے مترادف ہے۔ بطور وزیر اعلیٰ انہوں نے پہلا کام ایسا کیا جس سے بلوچستان میں تبدیلی کا احساس ہوتا ہے۔ انہوں نے صوبے میں قائم تمام ایف سی کی چیک پوسٹوں کو ختم کروا دیا۔ اس سے صوبے کے عوام خوش ہیں۔ ان میں اعتماد پیدا ہوا ہے کہ حکمران ان کے مسائل سے باخبر ہیں اور ان کے مسائل میں کمی لا سکتے ہیں۔ یہ ایک اچھی شروعات ہے۔ گزشتہ دنوں میں بھانجی کی شادی میں شرکت اپنے آبائی شہر کوئٹہ گیا تو دو سال کے بعد وہاں ایسا کھلا ماحول دیکھنے کو ملا۔ سڑکوں پر لگے ناکے غائب تھے۔ جی او آر تا سرکی روڈ تک یوں سمجھ لیں شہر کے ایک سرے سے دوسرے سرے تک ذہنی کوفت کا ذریعہ بننے والی حالت باقی نہیں تھی۔ ہاں البتہ چھائونی ، مری آباد وغیرہ جیسے حساس علاقوں میں البتہ چیک پوسٹیں موجود ہیں جن کا حفاظتی لحاظ سے موجود ہونا ضروری ہے۔
اب اس اچھائی کے ساتھ ایک برائی یہ سر اٹھانے لگی ہے کہ شہر میں ناکے نہ ہونے کی وجہ سے چوری چکاری اور ڈکیتی کی وارداتیں بڑھ گئی ہیں ، جن پر قابو پانے کے لیے حکومت کو اقدامات کرنا ہوں گے۔ اب کوئٹہ ایک طرف اگر کولپور کو چھو رہا ہے تو دوسری طرف کچلاک بھی شہر کا حصہ بن گیا ہے۔ کوئٹہ سے آگے کچلاک کے قریب ڈی ایچ اے کے نام سے ایک نئے جہاں کی تعمیر ہو رہی ہے جہاں سڑکیں بن گئی ہیں ترقیاتی کام جاری ہیں جلد ہی یہ کوئٹہ کی نئی شناخت ہو گی۔ امرا اور پیسے والے لوگ یہاں آ کر رہن بسیرا کریں گے۔ اراضی کی قیمت کوئٹہ میں آسمان سے باتیں کر رہی ہے۔ مگر اس کے باوجود قدم قدم پر کئی کئی منزلہ پلازے وہ بھی جدید تراش خراش کے ساتھ بن رہے ہیں ۔ 3 مرلے سے لے کر کئی کنال پر مشتمل یہ پلازے اور شاپنگ مال صوبے میں ترقی کی نئی داستان سنا رہے ہیں۔ کاروباری لحاظ سے کوئٹہ اب شہر کم اور تجارتی منڈی زیادہ بن چکا ہے۔
یہاں البتہ پانی کا مسئلہ بہت سنگین ہے۔ ہم بچپن سے لے کر آج تک اس مسئلے سے دوچار رہے ہیں۔ جس کی وجہ سے یہاں کراچی کی طرح ٹینکر مافیا کا راج ہے جو دونوں ہاتھ سے لوگوں سے لوٹ رہا ہے۔ حکومت ان کو لگام ڈالنے سے قاصر ہے۔ کیا معلوم پانی کی قلت جو بے شک سچ بھی ہے مگر اس کا شور مچانے میں یہی مافیا آگے آگے ہو۔ تعلیمی میدان میں اچھے اساتذہ کی کمی ، صحت کے میدان میں اچھے ڈاکٹروں کی قلت نے یہاں بہت سے مسائل کو جنم دیا ہے۔ جس سے جان چھڑانے کے لیے اساتذہ ہوں یا ڈاکٹر عام طور پر ہڑتال کا حربہ استعمال کرتے ہیں۔ جس سے ان کی اہلیت اور کارکردگی چھپ جاتی ہے اور لوگ ہڑتال کو کوستے ہیں۔ اگر موجودہ حکومت ترقیاتی کاموں کی رفتار تیز کرے تو باقی بچے ڈیڑھ سال میں اپنا ووٹ بنک مضبوط کر سکتی ہے۔ اس کے لئے صوبے میں گڈگورننس لانا ہو گی۔ انتظامی بدانتظامی اور بدعنوانیوں پر قابو پانا ہو گا کیونکہ بلوچستان میں انتظامی مشینری سے لوگ پریشان ہیں جن کا کام ہی فائلوں میں سب اچھا لکھنا ہوتا ہے جبکہ حقیقت اس کے برعکس ہے۔
شکر ہے اب بلوچستان میں کچھ عرصہ قبل تک جو دہشت گردی اور لسانی مذہبی و صوبائی تعصب پھیلا ہوا تھا قدرے کم ہوا ہے۔ لوگ اس ٹینشن زدہ ماحول سے کافی آزاد ہو چکے ہیں۔ خدا کرے یہ ہم آہنگی برقرار رہے۔ کوئٹہ کی رونقیں بحال رہیں۔ اپنا آبائی شہر ویسے ہی سب کو اچھا لگتا ہے۔ جس کی مٹی میں اس والدین آسودہ خاک ہوں۔ اس شہر کی محبت کبھی نہیں بھولتی۔ فرق صرف اتنا ہے کہ پہلے کوئٹہ صاف ستھرا کھلا شہر ہوتا تھا آج وہ جابجا کچرے ، تجاوزات اور آلودگی کی وجہ سے اپنا حسن کھو چکا ہے ورنہ ہمارے بڑے کہتے تھے کہ انگریزوں نے کوئٹہ کو زلزلے کے بعد ایک یورپی ماڈل کے طور پر تعمیر کرایا تھا جسے بے ہنگم تجاوزات اور بے منصوبہ آبادیوں نے سائل سے بھر دیا ہے۔ خدا کرے اب نئی حکومت کوئٹہ کی اصل شکل اگر بحال نہیں کر سکتی تو اسے مزید بدنما ہونے سے بچائے ۔ لوگوں کو سلیقے سے جینے کا ڈھنگ سکھائے۔ مقامی غیر مقامی افراد میں تفریق کی بجائے ذہین ، قابل اور لائق شہریوں کو اولیت دے۔ ان کی صلاحیتوں سے فائدہ اٹھائے۔ سیاسی مجبوریاں اپنی جگہ لیکن میرٹ پر سرکاری بھرتیاں اس لیے ضروری ہیں کہ ان لوگوں نے انتظام چلانا ہوتا ہے۔ آخری بات یہ کہ صوبے میں اب قبضہ گروپ بھی متحرک ہو گئے ہیں۔ ان کا سر کچلنے میں اگر تاخیر کی گئی تو پھر یہاں بھی پنجاب اور سندھ کی طرح قبضہ مافیا ہر جگہ ناچتا نظر آئے گا اور غریب شہری رو رہے ہوں گے۔ جن کی اراضی پر پلاٹوں پر یہ لوگ دھونس دھاندلی اور بے ایمانی سے قبضہ کر رہے ہیں۔