سری لنکا،نیویارک اور رانا شمیم
ہردم رواں زندگی میں کئی ایسے چہروں سے ملاقات ہوئی اور کچھ تجربات و معاملات بھی ایسے ہوئے جو بھول جانے والے نہیں ۔انہی میں قیمتی پتھر نیلم کا ایک تاجر"لطفی مختار"تھا ۔سری لنکا کے شہر کولمبو کا ایک ریئس اورکاروباری مسلمان ۔ویسے بھی سری لنکا کے مسلمان عمومی طورپر کاروباری اور امیرلوگ ہیں جیسے ہمارے یہاں کراچی میں میمن برادری مگر لطفی مختار عام زندگی میں بڑادلچسپ آدمی تھا۔لنکا کا سانولارنگ ،دراز قداور فرنچ کٹ داڑھی اسے عام سری لنکن لوگوں سے ممتاز کرتی ۔طبیعت میں انکساری مہمان نوازی اور تواضع خاصی حد تک پائی جاتی تھی۔یہ 80ء کی دہائی کا آغاز ہوگا جب میرے دوست شوکت وقارنے جو خاندانی طورپر قیمتی پتھروں کاکام کرتا تھا مجھے اس بات پر آمادہ کیا کہ میں اس کے ساتھ مل کرکولمبو میں لطفی مختار سے قیمتی پتھر نیلم خرید کرانڈونیشیا کے شہروں باالخصوص جکارتہ ،بنڈونگ اور بالی وغیرہ میں فروخت کروں۔میں نے بھی اس لئے حامی لی کہ ضیاء الحق کے عہد ستم میں میری گرفتاریوں کی تعداد زیادہ ہوگئی تھی اور پھر سری لنکا اور انڈونیشیا کی سیاحت بھی دل کو لبھانے لگی ۔شوکت وقار کے بارے میں بتاتاچلوں کہ وہ گورنمنٹ کالج گوجرانوالہ میں میراکلاس فیلو اور بڑاگہرا بلکہ گھریلو حدتک دوست تھا۔اس کے والدین عرصہ دراز سے انڈونیشیا میں مقیم اور قیمتی پتھروں کے کاروبار سے وابستہ تھے۔وقار کو گھر کے دیگر اہل خانہ کی طرح انڈونیشیا کے ملائی زبان پر عبور حاصل تھا جو کاروبار میں اس کی بڑی معاون ثابت ہوتی۔پہلی بار میں اس کے ساتھ"ایئرلنکا"کے ذریعے کولمبوپہنچا۔ جہاں ایئر پورٹ پر پہلے سے موجود لطفی مختار نے لائونج میں ہمارااستقبال کیا اور اپنے شاندار اور سری لنکن طرز تعمیر کے حامل گھر ٹھہرایا اگلے روز ہم کولمبو میںنیلم کی مارکیٹ "پیٹابازار"گئے۔شوکت وقار جواب جکارتہ میں وقار پنجابی کہلاتا ہے ،اس نے خام شکل میں نیلم خرید اوہ پتھروں کی پہچان کاماہر تھا اس لئے کئی روز تک مختلف مقامات سے خریداری کاعمل جاری رہا ۔جب یہ مرحلہ ختم ہوتو"پیٹابازار"میں موجود کئی ایک ماہر کاریگر جو پتھر کی تراش کا ہنرجانتے تھے ان میں سے بھی ایک ہنرور ایساتھا جو دس دن سے قبل نیلم تراش کردینے سے اپنی مصروفیات کی بنا پر قاصر تھا۔خام مال اسی کے حوالے کیا،رسید لی اور شام کو لطفی مختارکے ساتھ مسلمانوں کے ایک ریسٹورنٹ کھاناکھانے گئے۔ گاہکوں سے بھرے پڑے اس ریسٹورنٹ پر رش کی ایک وجہ حلال گوشت تھا جسے وہ لوگ صحت کیلئے مفید سمجھتے تھے۔سری لنکا کے کھانے بھی ہمارے طر ح چٹپٹے ہوتے ہیں ۔یہیں پاکستان کے معروف فلمی ہدائت کار ایس سلیمان سے بھی ملاقات ہوگئی جن سے پرانی آشنائی تھی۔جیسا کہ وقار اپنے فن میں ماہر تھا لہذا وقت ضائع کرنا اس کی لغت میں نہیں تھا۔
اگلے روز ہی لطفی کی گاڑی اور ڈرائیور کو ساتھ لے کر سری لنکاکے دوسرے بڑے شہر "کینڈی"چلے گئے۔یہاں کاموسم دلفریب تھا گرمی نہیں تھی ۔ایسا ہی موسم تھا جیسے ہمارے ہاں اکتوبر کے آخر میں ہوتا ہے۔پوراشہر ایسے ہے جیسے ہماراقذافی سٹیڈیم ۔یعنی اردگرد چھوٹی چھوٹی پہاڑیاں ایسے جیسے سیٹرھیاں ہوں اور پورا شہر یوں جیسے سٹیڈیم ہو جہاں لوگ اپنے پیارے پیارے ،صاف ستھرے اور پھولوں میں گندھے گھروں میں رہتے ہیں ۔بازاروں میں سامان کی حمل ونقل کیلئے جابجا "ہاتھی گاڑی"استعمال کی جاتی ہے جیسے کبھی کراچی میں اونٹ گاڑی کااستعمال بڑا عام تھا۔دن بھر شہر کی سیر کی ۔شہر تھا کہ فضاء میں ہمہ وقت پھولوں کی خوشبو رچی بسی رہتی تھی۔90%لوگ انگریزی زبان روانی سے بولنے والے اور خوش اخلاق ۔لباس زیادہ تر سوتی بنیان اور سامنے سے سلی ہوئی دھوتی ۔یہیں کہیں وقار کی نظر شہر کے بڑے بازار میں چند دکانوں پر پڑگئی جہاں اعلی قسم کے اور تراشیدہ پتھر"پکھراج"ہمیں سستے داموں مل گئے۔جو ہم نے انڈونیشیا جاکر فروخت کئے اور معقول منافع حاصل کیا۔پھر سری لنکا میں خانہ جنگی چھڑ گئی اور ہماراسرمایہ ڈوب گیا۔میرے تو صرف تیس ہزار امریکن ڈالر مگر وقار پنجابی کا نقصان اس کے کاروباری حجم کے مطابق بہت زیادہ ہوا۔رہا لطفی مختار تو اس سے دوبارہ آج تک ملاقات نہیں ہوسکی،"تامل ٹائیگرز"نامی دھشت گردتنظیم جس نے انڈیا کی مدد سے خانہ جنگی شروع کی تھی اسے پاکستان کی مسلح افواج نے کچل دیا اور سری لنکاجسے "مشرق کا موتی "بھی کہاجاتا ہے ایک بار پھر چین اور سکون کامقام بن گیا۔اس سے آگے ابھی یہ بتانا تھا کہ آج اگرکوئی پاکستانی سری لنکا چلاجائے تو اس سے کس قدراحترام ومحبت سے پیش آیا جاتا ہے کہ اچانک نیویارک سے آئے ہوئے اپنے دوست اور مسلم لیگ (کونسل)کے سربراہ سردارنصراللہ سے بات ہوگئی ۔وہ چند روز قبل ہی نیویارک سے لاہورآئے تھے۔ان سے نیو یارک کے دیگر دوست احباب کی خیریت اور شہر کے احوال پوچھے توبتانے لگے کہ پاکستان سے رانا شمیم نام کے گلگت بلتستان کے کوئی سابقہ چیف جسٹس آئے ہوئے ہیںاور (ن)لیگ کے دوست ان کی خوب خوب خدمت کررہے ہیں ۔خاص طورپر کراچی کے رانا ۔ صاحب ۔یہ نام سن کرماتھا ٹھنکاکہ خداخیر کرکے۔اورپھر وہی ہواجس کا خدشہ تھا۔اگلے روز ملک بھرکا میڈیا رانا شمیم کے نام سے بھرا پڑا تھا۔ان کے بارے میں آپ کچھ جان چکے ہوں گے ۔تاہم رانا ارشد کون ہیں؟ اور کراچی والے رانا صاحب کون ہیں؟ شائد اگلے کالم میں ذکر ہوجائے ۔