• news
  • image

 کتاب بچائیں


زمانہ گزرنے کے ساتھ ساتھ ہر چیز اپنے ارتقاء کی جانب سفر کرتی ہے۔صدیوں سے یہ عمل جاری ہے اور آئندہ بھی جاری رہے گا۔ارتقاء خوش آئند عمل ہے لیکن اس ارتقاء کے عمل میں اگر کچھ اچھی چیزیں، روایات یا عادات قصہ پارینہ بننے لگیں تو پھر ان کی حفاظت کی ذمہ داری بھی ہم پر عائد ہوتی ہے۔یہی حال کتاب کا ہورہا ہے کتاب دوستی ختم ہورہی ہے۔ میں یہ تو نہیں کہوں گی کہ پڑھنے کی عادت ختم ہوچکی ہے لیکن زمانہ گزرنے کے ساتھ کم ضرورہوگئی ہے۔ اگر اس کا جواز یہ پیش کیا جاتا ہے کہ انٹرنیٹ نے پڑھنے کے عمل کو کہیںبھی کسی بھی جگہ آسان کردیا ہے تو بھی اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں ہے کہ کتاب چھپنی بند ہوجائے۔ ہاتھ میں کتاب کا لمس محسوس کرکے اْسکے ایک ایک لفظ کو رْوح میں اْتارنے کا اپنا ہی ایک نشہ ہے۔ مجھے کہیں کا پڑھا ہوا ایک واقعہ یاد آرہا ہے جب اندلس کے درودیوار اسلامی علوم وفنون سے مزین تھے۔ طالبان علم وشوق ایک کتاب ایک اْستاد کی تلاش میں مہینوں اور سالوں کا سفر طے کیاکرتے تھے۔راہروان عشق اپنی علمی پیاس بجھانے کیلئے زندگیاں وقف کردیا کرتے تھے۔ اندلس کی درسگاہیں علمی و عصری علوم کا گڑھ تھیں۔ ایک عالم کو کسی کتاب کی تلاش تھی۔کتاب بہت نایاب تھی یہی تلاش اْس عالم کو قرطبہ تک لے آئی۔ قرطبہ کے تمام بازار اس تلاش وجستجو میں گھوم لئے لیکن مطلوبہ کتاب دستیاب نہ ہوسکی۔ اتفاق سے ایک جگہ پر کتابیں نیلام ہورہی تھیں۔کہتے ہیں کہ مجھے اپنی مطلوبہ کتاب وہاں پر نظر آگئی جس کتاب کو حاصل کرنے لئے دوردراز کا سفر کیا تھا اْس کوپانے کی خوش کو میں لفظوں میں بیان نہیں کرسکتا اس لئے کتاب کو حاصل کرنے کیلئے میں نے اْس کی زیادہ سے زیادہ بولی لگانا شروع کردی۔ جو شخص بھی بولی لگاتامیں آگے بڑھ کر اْس سے بھی زیادہ بولی لگا دیتا۔ یہ سلسلہ چلتا رہا حتیٰ کہ ایک صاحب حیثیت شخص نے آگے بڑھ کر کئی گنازیادہ بولی لگا دی۔ میں آگے بڑھااور اس سے کہا کہ اگر آپ واقعی عالم اور فقیہہ ہیں اور اس کتاب کے طلبگار ہیں تب آپ ضرور اس کو لے لیجئے اْس نے کہا میں کوئی عالم نہیں ہوں میں نے اپنے گھر میں ایک کتب خانہ بنا رکھا ہے۔ جو شرفاء کی علامت ہے اسی کتب خانہ کی الماری میں ایک جگہ خالی ہے جہاں یہ کتاب فٹ پوری آئیگی اور یہ دیکھنے میں بھی خوبصورت ہے۔ اس کو خریدنے کا بس یہی مقصد ہے۔ مجھے ایسا لگا کہ آج چند ایک کتاب دوست ہیں وہاں کچھ ایسے بھی ہیں جنہوں نے علامتی طور پر اپنے ڈرائینگ روم کی زینت بڑھانے کیلئے ان کو خریدا تو ہوگا لیکن پڑھنے کی نوبت نہیںآئی ہوگی۔ ہم لوگ کتنے کتاب دوست ہیں اس کا اندازہ آپ کو انارکلی کے اس بازار سے گزرنے پر ہوجائے گا جہاں خاص طور پر اتوار کے روز کتاب زمین پر رکھ کرفروخت کی جاتی ہے۔ بیچنے والوں کے پاس کوئی مناسب جگہ نہیں، فٹ پاتھ اور رہگزر میں رکھی ان کتابوں میں کئی کئی شاہکار اور نایاب کتابیں آپ کو مل جاتی ہیںاس کا اندازہ ان لوگوں کو خوب ہوگا جو یہاں دوردراز علاقوں سے اپنی مطلوبہ کتب کو خریدنے کیلئے آتے ہیں۔ اتنی ارزانی تو پائوں میںپہننے والے جوتوں کی بھی نہیں ہوتی جتنی مہنگی ترین مزین دکانوںمیں رکھ کر من مانے داموں فروخت کیا جاتا ہے۔ بہت سے دیگر مسائل کی طرح کسی صاحب اختیار کی توجہ اس جانب نہیں گئی کہ مستقل طور پر دیواروں کے ساتھ صندوق میں رکھ کر دن کے وقت ان کتابوں کو سجا کر بیچنے والوں کو ہرروز کتنی مشقت کا سامنا کرناپڑتا ہے۔ کیا کوئی صاحب اختیار اسی جگہ ان کو مستقل ریک بنوا کر مہیا نہیں کرسکتا۔ کم از کم کتاب کا تقدس پامال ہونے سے بچ جائے۔ ان کو مستقل کوئی ٹھکانہ فراہم کردیا جائے اور ساتھ ہی اس روڈ پر صفائی کا خاطر خواہ انتظام بھی ہونا چاہئے دوسری طرف ایک اور المیہ ہے کہ کوئی پہلے کتاب چھپواتاتو تقریباً 1000 اور 500 کی تعداد میں چھپتی تھی لیکن افسوس کا مقام ہے کہ اب یہ تعداد بھی روز بروز کم ہوتی جارہی ہے جبکہ آپ دوسرے ممالک میں دیکھئے کتاب ہزاروں لاکھوں کی تعداد کراس کرکے بعض اوقات کروڑوں پر بھی پہنچ جاتی ہے۔ کتاب دوستی ابھی وہاں ختم نہیں ہوئی، پڑھنے والوں کی تعداد بھی کافی زیادہ ہے۔ جبکہ شاذونادر ہی کچھ کتابیں ہیں جن کے ایڈیشن بار بار چھپتے ہیں مغربی ممالک میں لوگ سفر کے دوران فارغ اوقات میں فٹ پاتھ پر بس یا ریل کے انتظار میں کتاب ہاتھ میں لئے نظر آتے ہیں جبکہ یہاں جگہ جگہ ایک پڑھے لکھے شخص سے لے کر ریڑھی چلانے والا آپکو موبائل استعمال کرتا ہوا نظر آئیگا۔کتاب کی عادت عقل وشعور کو پروان چڑھاتی ہے۔ عادات ہی سے قوموں کے مزاج کا بھی پتا چلتا ہے۔ کتاب کی چھپائی کیلئے ہرروز کاغذ کی بڑھتی ہوئی قیمتوں نے رائیٹر، پبلشر اور خریدار تینوں کو پریشان کررکھا ہے۔ کم از کم کچھ معاملات میں مہنگائی کے شر سے بچ کر اچھی روایات اور عادات کو پروان چڑھایا جاسکتا ہے۔ ہمیں ڈگری یافتہ نہیں ایک پڑھی لکھی قوم کی ضرورت ہے۔

epaper

ای پیپر-دی نیشن