شہباز ،حمزہ کیخلاف منی لانڈرنگ کیس ،ایف آئی نے چالان کیلئے مہلت مانگ لی
لاہور ( اپنے نامہ نگار سے ) شوگر ملز منی لانڈرنگ کیس میں شہباز شریف نے ایف ائی اے کے تمام الزامات مسترد کر دیئے۔ شہباز شریف اور حمزہ شہباز عدالت میں پیش ہوئے۔ ایف آئی اے نے عدالت سے تفتیش مکمل کرنے کے لیے مزید مہلت طلب کر لی۔ جس کے بعد عدالت نے ملزموںکو تفتیش کا حصہ بننے کی ہدایت بھی کی۔ شہباز شریف نے میرے خلاف یہ کیس پہلے ہی نیب دیکھ چکا ہے۔ شوگر مل میں تنخواہ لی، نہ فائد ہ لیا اور نہ ہی شئیر ہولڈر ہوں۔ میرے اکاؤنٹ میں دھیلا بھی نہیں آیا۔ رمضان شوگر مل میرا کاروبار نہیں، یہ مل میرے والد کی تھی لہٰذا اس مل سے بھی میرا کوئی تعلق نہیں، میرے اقدامات کی وجہ سے میرے بچوں کی شوگر ملز کو اربوں کا نقصان ہوا، یہ وہی عدالت نے استفسار کیا کہ کیا ان سب باتوں کا اس کیس سے کوئی تعلق ہے؟ جس پر شہباز شریف نے جواب دیا کہ یہ سب میرے بے نامی دار بنا رہے ہیں۔ ایف آئی اے نے جواب میں بتایا کہ ملزم تفتیش کا حصہ نہیں بنے ملزموں نے عبوری ضمانت لی ہوئی ہے۔ جج نے حکم دیا کہ عبوری ضمانت لینے والے ملزم آج ہی ایف آئی اے کی انویسٹی گیشن جوائن کریں۔ جج نے سوال کیا کہ ایف آئی اے کی تفتیشی ٹیم نے اب تک کیا کارروائی کی۔ جس پر تفتیشی افسر نے جواب دیا کہ شریک ملزم عثمان ابھی تک شامل تفتیش نہیں ہو رہا۔ جج نے ایف آئی اے سے سوال کیا کہ کتنے دن میں ایف آئی اے چالان جمع کروائے گا دن بتائیں۔ ایف آئی اے نے عدالت میں جواب دیا کہ انویسٹی گیشن مکمل ہوتے ہی چالان جمع کرا دیں گے۔ جج نے ریمارکس دیئے کہ حتمی تاریخ بتائے ورنہ ایف آئی اے کے متعلقہ افسروں کو شوکاز نوٹس جاری کریں گے۔ ایف آئی اے نے چالان جمع کروانے کے لیے تین ہفتے کی مہلت مانگ لی۔ جس کے بعد عدالت نے شہباز شریف سمیت تمام ملزمان کی عبوری ضمانت میں11 دسمبر تک توسیع کر دی۔ ایف آئی اے کا کہنا ہے کہ شہباز شریف اور حمزہ شہباز کے خلاف دستاویزی ثبوت موجود ہیں جس کے تحت شہباز شریف اور حمزہ شہباز قابل احتساب ہیں۔ چپڑاسیوں اور کلرکوں کے اکاؤنٹس میں 16 ارب روپے کی منتقلی کے لیے شہباز شریف اور حمزہ شہباز قابلِ احتساب ہیں۔ اعلامیہ کے مطابق شریف گروپ کے خلاف میگا منی لانڈرنگ کی تحقیقات جاری ہے۔ تحقیقاتی ٹیم نے 16 بلین روپے کی 17 ہزار ٹرانزیکشنز کی منی ٹریل کا تجزیہ کیا، یہ پیسے شریف گروپس کے کلرک اور چپڑاسی کے اکاونٹس میں ڈالے گئے۔ ایف آئی اے کے مطابق یہ رقم 2008ء سے 2018ء کے دوران کلرکوں اور چپڑاسیوں کے اکاؤنٹس میں جمع کروائی گئی۔ اس دوران شہباز شریف اور حمزہ شہباز دونوں ہی پبلک آفس ہولڈر تھے۔