روک سکو تو روک لو تبدیلی آئی رے!!!!!
احسان مانی اور وسیم خان کے جانے کے بعد کرکٹ بورڈ میں وکٹیں گرنے کا سلسلہ جاری ہے۔ ویسے خود کوئی نہیں جا رہا۔ بتایا جا رہا ہے کہ نئے چیئرمین جن لوگوں کے کام سے مطمئن نہیں ہیں انہیں احساس دلایا جا رہا ہے کہ جلد از جلد اپنا فیصلہ کریں۔ ویسے یہ ہمیشہ ہوتا ہے جب بھی نیا چیئرمین آتا ہے وہ پہلے سے اہم عہدوں پر موجود افراد کو گھر بھیج کر ہم خیالوں کو کام کرنے کا موقع فراہم کرتا ہے۔ کچھ لوگ کامیاب ہوتے ہیں کچھ ناکام ہوتے ہیں، کامیاب لوگوں کے سائے میں ناکام رہنے والے بھی چلتے رہتے ہیں لیکن اب کی بار جانے والے خود اتنے بڑے ناکام ثابت ہوئے ہیں کہ جن لوگوں کو انہوں نے لگایا تھا وہ لگانے والوں سے بھی زیادہ ناکام ثابت ہوئے ہیں اور جب لگانے والے ہی نہیں رہے تو ان کے منظورِ نظر کیسے بچ سکتے ہیں۔ بس ایسا ہی کچھ ان دنوں کرکٹ بورڈ کی راہداریوں میں ہو رہا ہے۔ ہر دوسرا شخص ساتھی کو دیکھ کر پوچھتا ہے "ابھی یہیں ہو" پھر دونوں مسکراتے ہیں اور اپنے اپنے دفتروں کی طرف چل دیتے ہیں۔ جنہیں یہ زعم تھا کہ وہ بہت باصلاحیت ہیں وہ بڑے بڑے بھی نئے چیئرمین کو متاثر یا قائل کرنے میں ناکام رہے ہیں اور اس کی سب سے بڑی مثال سابق چیف ایگزیکٹیو آفیسر وسیم خان ہیں۔ ان کے بعد بھی کئی لوگ جا چکے ہیں اور اب سننے میں آ تہا ہے کہ نیشنل ہائی پرفارمنس سنٹر میں بھی مزید تبدیلی کی ہوا چلنے والی ہے۔واقفان حال بتاتے ہیں کہ وکٹ کیپنگ کوچ عتیق الزمان نے بھی مستعفیٰ ہونے کا فیصلہ کیا ہے۔ ابھی ایک اچھے دوست کا فون آیا وہ بتا رہا تھا کہ بہت سے استعفے ایسے بھی آ رہے ہیں کہ اس نتیجے تک پہنچنے سے پہلے بہت کوشش کی گئی کہ کسی طرح تبدیلی کے اثرات سے محفوظ رہ سکیں لیکن سونامی میں کون بچ سکتا ہے۔ جیسے آئے تھے ویسے ہی واپسی ہو رہی ہے۔ ایک کوچ ایسے بھی ہیں انہوں نے کئی دو تین سال پہلے تک بورڈ میں کام کرنے والوں کو بھی فون کیے کہ شاید وہ رمیز راجہ کو سفارش کر دیں لیکن شاید کام بنا نہیں۔ ویسے جب نیشنل ہائی پرفارمنس سنٹر میں تبدیلی کی بات ہو رہی ہے تو ڈائریکٹر این ایچ پی سی ندیم خان سے پوچھا جانا چاہیے کہ انہوں نے چھ ماہ میں جس تبدیلی کا وعدہ کیا تھا وہ تبدیلی کہاں ہے اور اگر وہ تبدیلی نہیں لا سکے تو پھر کیوں نہ انہیں تبدیل کر دیا جائے کیونکہ تبدیلی تو کسی صورت نہیں رکنی چاہیے۔نیشنل ہائی پرفارمنس سنٹر کو جس غیر پیشہ وارانہ انداز میں احسان مانی اور وسیم خان کے دور میں استعمال کیا گیا ہے اس کی بھی مثال نہیں ملتی۔ ان لوگوں نے سوائے نام تبدیل کرنے کے کچھ نہیں کیا۔ ڈومیسٹک کرکٹ کا بیڑہ غرق کر دیا، کلب کرکٹ کا ستیا ناس کر دیا، ملک کے بنے بنائے کرکٹ گراؤنڈز کو ویران کر دیا۔ کروڑوں روپے جن کرکٹ گراؤنڈز پر لگائے تھے وہ سارا سرمایہ ڈبو دیا۔ اپنی تنخواہیں بناتے رہے، سیاسی فیصلے کرتے رہے، ڈومیسٹک ٹیموں کی سلیکشن، کوچز کی تعیناتی، کلبوں کی رجسٹریشن سمیت کوئی شعبہ ایسا نہیں جہاں تباہی نہ ہوئی ہو، ہر وہ فیصلہ کیا گیا جس سے ملک کے
مقبول ترین کھیل کو نقصان پہنچا۔ اگر انہیں زعم ہے کہ بہت اچھا کام کیا ہے تو پھر انہیں براہ راست سوال و جواب کے سیشن میں بٹھایا جائے لوگ ان سے پوچھیں یہ جواب دیں تاکہ قوم کو علم ہو سکے کہ چن چن کر کیسے کیسے ہیرے نوجوان و باصلاحیت کرکٹرز کے سروں پر بٹھائے گئے تھے۔ بات صرف نیشنل ہائی پرفارمنس سنٹر یا ڈومیسٹک کرکٹ تک ہی محدود نہیں ہے۔ اچھے بھلے تربیت یافتہ گراؤنڈ سٹاف کو گھر بھجوایا گیا۔ جن لوگوں کو صوبائی ایسوسی ایشنز میں ذمہ داریاں دی گئی ہیں وہ کرکٹ بورڈ کے وسائل کو کیسے استعمال کر رہے ہیں یہ شاید ابھی نئے چیئرمین کے علم میں نہیں ہے۔ کیا ہی بہتر ہو کہ پتہ کریں کہ کس کس کے خلاف شکایات موجود ہیں۔مارکیٹنگ کے شعبے میں جو کچھ ہوا وہ کسی سے ڈھکا چھپا نہیں ہے۔ پاکستان سپر لیگ کے معاملات کو جیسے چلایا گیا ہے اور جس غیر پیشہ وارانہ انداز میں فیصلے کیے گئے اس وجہ سے برانڈ کو بہت نقصان پہنچا ہے۔ میڈیا کے لیے راستے بند کیے گئے، سارا سال کرکٹ کور کرنے والے کیمرہ مینوں کو قیدی بنا دیا گیا لیکن یہ سب کچھ وقتی، غیر حقیقی اور بناوٹی تھا دیکھنا یہ ہے کہ تبدیلی سے مزید تباہی ہوتی ہے یا تعمیر کا راستہ نکلتا ہے۔ گوکہ یہ اچھا منظر نہیں کہ ہم لوگوں کو اس انداز میں جاتے ہوئے دیکھ رہے ہیں لیکن یہ ابق ضرور ملتا ہے کہ آتے وقت قواعد و ضوابط اور اصولوں کو مدنظر رکھا جائے تو باس کے جانے سے نظام چلتا رہتا ہے۔ بہرحال آمریت کا دور ختم ہوا ہے۔ دیکھتے ہیں کہ اب تبدیلی کے دور میں آزادی ملتی ہے یا پھر خواب ٹوٹتے ہیں لیکن رمیز راجہ سے امیدیں بہت ہیں۔ ان کی نیندیں اڑ چکی ہیں اللہ کرے کہ سونے سے پہلے پہلے وہ بہتر فیصلے کر کے ملکی کرکٹ کی سمت درست کریں تاکہ رمیز راجہ چین کی نیند سو سکیں اور جنہیں کام کرنے سے روکا گیا تھا وہ دوبارہ کام کرتے ہوئے کھیل کے ویران میدانوں کو آباد کریں۔