اشاروں کنایوں میں
موسم بدل رہا ہے۔ آخرکار ہوا میں خنکی آہی گئی ہے اور لاہور میں جو خنکی ہلکی ہلکی محسوس ہو رہی ہے۔ یہ اسلام آباد کے ایوانوں کی گیلریوں میں ایک دم ٹھنڈک کا احساس دلا رہی ہے اور شہر سے ہٹ کر پہاڑوں کے پاس تو کچھ زیادہ ٹھنڈ کا احساس ہے۔ موسم کی تبدیلی‘ تبدیلی والوں پر کچھ زیادہ ہی بھاری پڑی ہے۔ فضا کے ساتھ ساتھ لہجوں میں بھی سرد مہری اتر آئی ہے۔ ویسے تو شہر اقتدار راتوں رات رنگ بدل لیتا ہے‘ لیکن اس بار فضا کچھ حیران پریشان سی ہے۔ EVM اور بیرون ملک پاکستانیوں کو تو ووٹ کا حق مل گیا‘ لیکن یہ اونٹ کس کروٹ بیٹھے گا‘ کوئی نہیں جانتا۔
ابھی 2023ء کے الیکشن میں تقریباً دو سال ہیں‘ لیکن ایسے لگتا ہے کہ کوئی جلدی میں ہے۔ سب ہی تیاری کرنا چاہتے ہیں۔ کچھ لوگ حلقوں میں جا کر دن رات عوام میں موجود ہیں تو کچھ ان عوام میں موجود لوگوں کو آخری وقت میں جس طرح استعمال کرنا ہے‘ اس کی تیاریوں میں۔ حکومت والے جن کی تقریباً ساڑھے تین سالہ کارکردگی نااہلی اور ناقابلیت کا منہ بولتا ثبوت ہے کہاں سے شروع کیا جائے‘ ایسے ایسے چند آفتاب چند ماہتاب روشن ستارے حکومت کا حصہ ہیں کہ ان کی کارکردگی دیکھ کر اور گفتگو سن کر عوام کی قسمت پر نازل عذاب پر رونے کو دل کرتا ہے۔ سیاست کی الف ب سے نابلد ایسے ایسے ہیرے جو شاید حقیقت میں یونین کونسل بھی نہ جیت سکتے۔ اس مجبور عوام کو تحفہ دیئے گئے ہیں۔ سیاسی تربیت اور کارکردگی کا عالم ایسا ہے کہ شام کو ٹاک شو دیکھنے کی غلطی کبھی نہیں کی کیونکہ ایسے لایعنی‘ بے تکے اور سفید جھوٹ سننے کو ملتے ہیں کہ پھر زچ ہوکر رات کو نیند بھی نہیں آتی۔
ملک کی حالت یہاں جا پہنچی ہے کہ معیشت ایک راکٹ کی تیزی سے زمین بوس ہوکر تباہ ہونے کو ہے۔ مہنگائی کا عالم یہ ہے کہ مجھے سمجھ نہیں آتی کہ دکاندار اور سفید پوش تنخواہ دار آخر اپنے خاندانوں کے پیٹ کیسے پال رہے ہیں؟ آٹا‘ چینی‘ تیل‘ گھی یہ سب عام استعمال کی چیزیں ہیں‘ لیکن اس دور حکومت میں ان کی قیمتیں چوگنی بڑھا دی گئی ہی اور نجانے کس نے یہ پٹرول بم کی اختراع نکالی ہے۔ یہ بم نہیں ایٹم بم ہے جو روز عوام پر پھینکا جاتا ہے۔ اس پر ظلم خدا کا کہ بجائے لوگوںکو آگے کا کوئی روڈ میپ دیا جائے کہا جاتا ہے کہ گھبرانا نہیں۔
’’اب تو گھبرا کے یہ کہتے ہیں کہ مر جائیں گے۔‘‘
ادھر اپوزیشن کا یہ حال ہے کہ (ن)‘ لیگ‘ ش‘ م کے گھن چکر میں مبتلا۔ حالانکہ عقل والے جانتے ہیں کہ (ن) لیگ (ن) ہی ہے۔ ش‘ م نہیں بن سکتی بیانیہ بدل بدل بدل کر انہوں نے اپنے ورکروں اور ساتھیوں کے دماغ گھما دیئے ہیں۔ پر جب مخالف نااہل ہو تو سمجھیں‘ اللہ مددگار ہوا۔ تو مجھے زرداری صاحب کی کہی ہوئی بات کہ انہیں ہم نہیں گرائیں گے یہ خود گریں گے‘ صحیح لگتی ہے۔
اکتوبر کے پہلے ہفتے سے لیکر اب تک جو حالات اس وقت ملک میں چل رہے ہیں‘ ان کی مثال پہلے نہیں ملتی۔ میری والدہ مجھ سے بے انتہا محبت کرتی تھیںاور میرے والد یہ دیکھ کر اکثر کہتے کہ آپ بچوں کو خراب کرنے میں کمانڈر انچیف ہیں۔ اب بات یہ ہے کہ اگر بچوں کی اچھی تعلیم و تربیت نہ کرو‘ ان کو کھینچ کر نہ رکھو‘ ان کی غلط بات کو صحیح کہو‘ ان کو محنت کی عادت نہ ڈالو تو وہ ناکام ہو جاتے ہیں۔ وہ اپنی ناکامیوں کو چھپانے کیلئے شارٹ کٹ اختیار کرتے ہیں۔ بچوں کو دنیا کی سختیوں کیلئے تیار کرنا چاہئے۔ اگر زندگی کے امتحانوں میں بچوں کو پورا اترنے کی عادت ڈالنی ہو تو ان کو اپنے زور بازو پر محنت کی عادت ڈالنی ہوتی ہے۔ زیادہ لاڈ پیار بچوں کو بگاڑ دیتا ہے۔ وہ ماں باپ کی بساط سے بڑھ کر فرمائشیں کرنے لگتے ہیں اور فرمائشیں پوری نہ ہونے پر طوفان بدتمیزی برپا کر دیتے ہیں۔ اولاد میں ناانصافی اور ایک بچے پر زیادہ توجہ نہیں کرنی چاہئے۔ یہ بھی ضروری ہے کہ ایک بچہ اگر بدتمیز ہو جائے تو باقیوں کے بھی رنگ پکڑنے کا خدشہ ہوتا ہے۔ سمجھدار ماں باپ ایسے بچوں کو کان سے پکڑ کر کونے میں کھڑا کر دیتے ہیں۔
بروقت احتیاطی تدابیر خاندان اور گھر کی سالمیت اور وقار کیلئے بہترین ہوتی ہے۔