• news
  • image

کلبھوشن یادیو کی ڈی چوک پر پھانسی؟

عمران خان نے اقتدار سنبھالنے کے بعد ہر وہ کام کیا جس کی پہلے ببانگ ِ دہل مخالفت کی،پاکستان میں ہندوستان کے گرفتار جاسوس کلبھوشن یادیو  کے معاملے پر 2017  ء میں نواز شریف کی حکومت سے عمران خان نے پُر زور مطالبہ کیا تھا کہ کلبھوشن یادیو کو 14 اگست کے دن پھانسی دی جائے ، عمران خان اس وقت اپوزیشن میں تھے وہ اور ان کی جماعت پاکستان تحریکِ انصاف نے موقف اپنایا تھا کہ وہ جب اقتدار میں آئیں گے تو سب سے پہلے کلبھوشن یادیو کو ڈی چوک پر پھانسی دیں گے ،تحریکِ انصاف کے موجو دہ  وزیر  علی امین گنڈا پور نے  تو ٹی وی انٹر ویو میں یہ الزام بھی عائد کر دیا تھا کہ نواز شریف حکومت نے کلبھوشن کو فرار کرا دیا ہے ۔ 2017 ء میں جب نواز شریف بحیثیت وزیر اعظم سرکاری دورے پر امریکہ گئے تو عمران خان نے واویلا مچایا کہ امریکی صدر سے ملاقات میںانہوں نے کلبھوشن کا مسئلہ کیوں نہیں اٹھایا،اپنے اس موقف کے بالکل بر عکس انہوں نے بدھ 17 ، نومبر کو پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں ہندوستان کے جاسوس کلبھوشن یادیو کے حق میں بل منظور کر وایا، اور دوسرے ہی دن ہندوستان کی حکمراں جماعت بی جے پی کا وفد پاکستان پہنچ گیا ، کیا یہ اتفاق ہے کہ ’’ مودی کا جو یار ہے ‘‘  اتنا ضرور ہے کہ عالمی عدالتِ انصاف کا اس معاملے سے کوئی تعلق نہیں ۔ ملتان میں وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’’ ہمارے پاس انڈین جاسوس کلبھوشن یادیو کے خلا ف ٹھوس ثبوت موجود ہیں اور امید ہے کہ ہم یہ مقدمہ جیت لیںگے ،عالمی عدالت انصاف کی جانب سے کلبھوشن یادیو کے مقدمے کی سماعت فروری 2019 ء میں کرنے کے ایک روز بعد شاہ محمود قریشی کا یہ بیان سامنے آیا تھا ۔ 3 ، مارچ 2016 ء میںپاکستان کے خفیہ اداروں نے انڈین جاسوس کلبھوشن یادیو کو  بلوچستان کے علاقے ما شکیل سے گرفتار کیا تھا ، کلبھوشن نے اعتراف کیا تھا کہ وہ انڈین بحریہ کاحاضر سروس افسر ہے،اور وہ انڈیا کی خفیہ ایجنسی ’’ را ‘‘ کے لئے کام کررہا ہے بلوچستان سے پاکستان داخل ہونے کا مقصد بتاتے ہو ئے کلبھوشن نے کہا کہ اس نے بی ایس این ( بلوچ سب نیشنلسٹس ) کے اہلکاروں سے ملاقات کرنی تھی ،جو آنے والے دنوں میں بلوچستان میں کوئی کاروائی کرنا چاہتے تھے۔جس فوجی عدالت سے کلبھوشن یادیو کو سزا سنائی گئی تھی وہ 2015 ء میں آرمی پبلک سکول میں دہشت گرد حملے کے بعد بنائی گئی تھیں ، ان عدالتوں سے منسلک جو ایکٹ تھا اس پر قانونی ماہرین ، سول سوسائٹی اور دوسرے طبقہء فکر کوتشویش اور اعتراض تھاکہ فوجی عدالتیں آئین کے دائرہ کار میں نہیں ، اس اعتراض کو مدِ نظر رکھتے ہوئے سپریم کورٹ آف پاکستان نے کہا تھا کہ فوجی عدالتوں سے جو بھی فیصلہ یا آرڈر دیا جائے گا ، اس فیصلے اور آرڈر کا عدالتی جائزہ  یا  ریویو کیا جائے گا اور رٹ پٹیشن بھی جمع کرا ئی جا سکے گی ، جس کے بعد پشاور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس وقار احمد سیٹھ مرحوم نے کئی لوگوں کی رٹ پٹیشن پر اپنے فیصلوں سے رہائی دی۔اب جبکہ سپریم کورٹ آف پاکستان کے فیصلے پہلے سے موجود ہیں اور ایسے معاملات کے لئے طریقہ کار واضح اور جامع طور پر بیان کیا گیا ہے تو حکومت کو اس زمرے میں پارلیمنٹ میںبجٹ سیشن سے پہلے یہ بل منظور کروانے کی کیا ضرورت پیش آئی ،  جب کہ یہ بل ابھی سینٹ میں بجٹ سیشن کے بعد یعنی 20 دن بعد منظوری کے لئے پیش ہو گا ،کیا حکمراں سپریم کورٹ آف پاکستان کے فیصلوںکو ناکافی سمجھتے ہیں یا پسِ پردہ کوئی اور عوامل ہیں۔ 1999 ء میں  ہندوستان  نے پاک نیوی کے ایک طیارے کو مار گرایا تھا جس میں نیوی کے 16  جوان شہید ہو گئے تھے یہ ہندوستان کی عالمی قوانین کی خلاف ورزی تھی پاکستان نے عالمی عدالتِ انصاف سے رجوع کیا تو ہندوستان نے عدالت کا دائرہء اختیار چیلنج کر دیا  لہٰذا عدالت کے سولہ رکنی بنچ نے اپنے فیصلے میں اس مقدمے کو سننے سے انکار کردیا 16 میں سے 14 ججوں کا  موقف تھا کہ یہ معاملہ عدالت کے دائرہ اختیار میں نہیں ۔عالمی عدالتِ انصاف کا اختیار ِ سماعت اس وقت بنتا ہے جب دونوں فریق باہم رضامند ہوں ، پاکستان سپریم کورٹ بار کے سابق صدر اور ماہر قانون اکرم شیخ نے بھی یہ کہا تھا کہ کلبھوشن یادیو کی سزا کا معاملہ عالمی عدالت انصاف کی سماعت کے ا اختیار میں نہیں آتا ، یاد رہے کہ پاکستان فوج کے ترجمان میجر جنرل آصف غفور کا کہنا تھا کہ مبینہ ہندوستانی جاسوس کلبھوشن یادیو کو فوجی عدالت میں قانون کے مطابق سزا سنائی گئی ہے،پاکستان کی جانب سے عدالت انصاف میں دلائل دیتے ہوئے بیرسٹر خاور قریشی نے کہا تھا کہ ویانا کنونشن کے تحت عالمی عدالت انصاف کا دائرہ اختیار محدود ہے لہٰذا کلبھوشن کا معاملہ عالمی عدالت انصاف میں نہیں لایا جا سکتا ۔پھر وہ کون سے عوامل تھے اور کیسے کلبھوشن کا معاملہ عالمی عدالت انصاف نے سنا ،ملک کی اعلیٰ عدلیہ کے بعد پارلیمنٹ کو متنازع بنا کے دنیا میں رسوا کرنے سے گریز کیا جائے اور ایسے عناصر کا محاسبہ ہونا چاہئے جو ملکی مفاد کو دائو پر لگا دیتے ہیں ۔ 

epaper

ای پیپر-دی نیشن