عدل و انصاف کا قیام
معاشرہ میں امن و امان کے قیام ،بگاڑوفساد کی بیخ کنی میں جہاں تعلیم وتربیت کی بڑی اہمیت ہے وہیں بے لاگ عدل وانصاف کا نمایاں کردار ہے، انسانی معاشرہ کو مستحکم بنیادوں پر استواررکھنا اسی وقت ممکن ہے جب عدل وانصاف کے تقاضے پورے ہوں اور مجرمین کوبلا کسی رورعایت کے قرارواقعی سزاملے ، اسکے بغیر جرائم سے پاک معاشرہ کا تصورممکن نہیں۔ اس لئے اسلام نے ایسے جرائم جن سے دوسرے پر ضرب پڑتی ہوان کی حدمقررکی ہے، جیسے قتل وغارت گری، لوٹ مار،زنا،ڈکیتی ،شراب نوشی وغیرہ۔لیکن ان سزائوں کے نفاذکا اختیارعوام کو نہیں دیا گیا بلکہ اسکی باگ ڈورحکومت کے ہاتھ میں رکھی گئی ہے، انصاف کو یقینی بنانے کیلئے دوچیزیں ضروری ہیں: ایک توحکومت کے تمام مناصب اورعہدے اسکی اہلیت وصلاحیت رکھنے والوں کے سپرد کئے جائیں،عہدوں کی تقسیم میں سیاسی ،نسلی ،وطنی ، سماجی وجاہت ،خاندانی روابط،دوستانہ تعلقات،کنبہ پروری ، شخصی یا جماعتی مفادات کا ہرگزکوئی لحاظ وپاس نہ ہو۔ دوسرے عدل وانصاف کے مطابق فیصلے صادرہوں۔ ارشاد باری ہے ’’بے شک اللہ سبحانہ وتعالی تمہیں حکم فرماتے ہیں کہ امانتوں کو انکے سپردکروجواسکے اہل ہیں اورجب بھی لوگوں کے درمیان فیصلہ کروتو عدل وانصاف سے فیصلہ کرو، لیکن مقام افسوس ہے کہ وطن عزیزمیں اسلامی تعلیمات کے برعکس فیصلے کیے جاتے ہیں کسی کو بھی بڑے عہدے پر تعینات کرتے ہوئے پسند و ناپسند کا خیال رکھا جاتا ہے اور میرٹ کی دھجیاں بکھیری جاتی ہیں اور اسی بات کا خمیازہ پوری قوم کو بھگتنا پڑتا ہے پاکستان اس وقت تک ترقی کی شاہراہ پر گامزن نہیں ہوسکتا ہے جب تک تمام اداروں میں تعیناتی انتہائی ایمانداری اور پسند و ناپسند سے ہٹ کر نہیں کی جائے گی اور عدل و انصاف کے حوالے سے اسلامی تعلیمات کو مقدم نہیں رکھا جاتا ہے۔ چند دن پہلے جو کچھ ہوا ،رقم کرتے ہوئے کلیجہ منہ کو آتا ہے۔ پہلے ان ذمہ داران کے بیان دیکھ لیتے ہیں اور بعد میں اسکے مختلف پہلوؤں پر بات کرتے ہیں سپریم کورٹ کے چیف جسٹس جناب جسٹس گلزار احمد نے کہا ہے کہ عدالتیں آزاد ہیں۔ کسی میں ہمت نہیں کہ ہمیں ڈکٹیشن دے، بتا دیں کہ کس کی ہدایت پر کس کا فیصلہ ہوا، عہدہ پہلے چھوڑ دیا تھا، اب بھی چھوڑ دینگے، غیر جمہوری سیٹ اپ قبول نہیں کرینگے۔ غلط فہمیاں نہ پھیلائیں۔ سپریم کورٹ آزاد ہے اور کسی میں ہمت نہیں کہ ہمیں روکے۔ آج تک کسی ادارے کی بات سنی اور نہ ہی دباؤ لیا، ضمیر کے مطابق فیصلے کرتا ہوں، اور عدلیہ کے معاملات میں کوئی مداخلت نہیں ہو رہی۔ الزامات لگانے والے انتشار نہ پھیلائیں۔ لوگوں کو غلط باتیں نہ بتلائیں۔ اداروں کے اوپر سے لوگوں کا بھروسہ نہ اٹھوائیں۔ انہوں نے زور دے کر کہا کہ ملک کے اندر قانون و آئین کی، اور ہر طرح سے جمہوریت کی حمایت کرتے رہیں گے۔ اسی کا پرچار کرتے رہیں گے، اور اسی کو نافذ کرتے رہیں گے۔ اس بات کا اظہار انہوں نے لاہور میں ممتاز قانون دان محترمہ عاصمہ جہانگیر کی برسی کی تقریب کے دوران کیا۔ ان سے پہلے سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے سابق صدر اور شعلہ بیاں مقرر علی احمد کرد سمیت کئی ممتاز شخصیات نے بھی خطاب کیا جن میں محترم جج صاحبان بھی شامل تھے۔ فاضل وکیل سے میری عاجزانہ عرض ہے کہ کیا آپ نے بحیثیت وکیل کبھی اپنے گریبان میں جھانکا ہے کے عدالتوں میں آپکا اور آپکے ساتھی وکلا کا جو رویہ ججز صاحبان کے ساتھ ہوتا ہے کیا آپ اسے مثالی رویہ کہہ سکتے ہیں تالی ایک ہاتھ سے نہیں بجتی ہے محض ججز صاحبان کو مورد الزام ٹھہرانا قرین قیاس نہ ہوگا۔ دو سال پہلے پنجاب انسٹی ٹیوٹ آف کارڈیالوجی پر وکلاء کی یلغار ایک خوفناک واقعہ تھا جو پاکستانی عوام کے دلوں سے اب تک محو نہیں ہوا ہے۔ ایسے واقعات اب بھی ہوتے رہتے ہیں۔ سپریم کورٹ بار ایک اہم پلیٹ فارم ہے اسے تضحیک مت بننے دیں۔ اعلیٰ عدلیہ کے ججز اور عالمی نمائندے اسی لئے اسکی تقریبات میں شریک ہونا اعزاز سمجھتے ہیں کہ یہ ایک جمہوری باڈی ہے۔ اگر اس روش کوترک نہ کیا گیا تو کوئی بھی چیف جسٹس ایسی تقریب میں شرکت نہیں کریگا ۔ سنجیدہ صفت وکلا رہنمائوں کو اس صورتحال کا ادراک کرتے ہوئے حکمت عملی اختیار کرنے کی ضرورت ہے۔ ایسا نہ ہو کہ جمہوری آزادی کی آڑ میں دشمن قوتیں ہماری سلامتی کیخلاف سازش رچانے میں کامیاب ہو جائیں۔ اس سلسلے میں ہم سب کو اپنا محاسبہ کرنا ہو گا دوسروں پر تنقید کوئی بڑی بات نہیں ۔ اداروں اور پیشہ ورانہ تنظیموں کو سمجھداری سے کام لینا ہوگا ، وکلا تنظیموں کو تربیت گاہ کا کردار نبھانے کی طرف آنا ہوگا ورنہ جمہوریت کے پنپنے کی بجائے ہم انارکی کو منزل بنا بیٹھیں گے۔ زیب داستان سنانے کا مقصد یہ ہے کہ یہ وقت بے جا تنقید کا نہیں ہے اور پاکستان اسکا متحمل بھی نہیں ہے۔