پیپلز پارٹی یو تاسیس سے پشاور میں تجدید عہد تک
عترت جعفری
ملک میں محنت کشوں،طلبائ،کسان اور نچلے طبقوں کی نمائندہ جماعت پاکستان پیپلز پارٹی آج اپنا 55واں یوم تاسیسں منا رہی ہے ،اس یوم تاسیس کے حوالے سے پشاور میں جلسہ عام ہو رہا ہے، جس میں ملک بھر سے آئے ہوئے مندوبین ملکی سیاست ،حکومت اور اپوزیشن کے کردارسمیت عوام کی جدوجہد کے حوالے سے اپنے لائحہ عمل پر مبنی تجدید عہد کا اعلان کریں گے ۔55سال قبل جب اس جماعت کی بنیاد اس کے قائدزیڈ اے بھٹو رکھ رہے تھے اس وقت بھی ملک کے اندر معاشی بد حالی ، آمریت کے خلاف عوام بمیں اسی شدت سے بے چینی پائی جاتی تھی ۔ 22خاندانوں کا ذکر شد ومد سے ہو رہا تھا اور کہا جا رہا تھا کہ پوری ریاست انہی کی دولت میں اضافہ کا باعث بنی ہوئی ہے ،پی پی پی نے اس وقت ملک کی تاریخ میں پہلی بار ایک متفقہ آئین بنایا اور اسے ملک کی تمام جماعتوں کے ساتھ ملک کر اتفاق رائے سے نافذ کیا،پاکستان کا ایٹمی پروگرام شروع کیا،پاکستان اسٹیل مل اور ہیوی انڈسٹریز ٹیکسلا شروع کیں۔لاہور میں دوسری اسلامی سربراہی کانفرنس منعقد کی۔1971ء کی جنگ کے بعد بھارت کی قید سے 90 ہزار فوجیوں کو رہا کروایا۔ 2007-8ء میں آئین کو اصل شکل میں بحال کیا، 8ویں ترمیم کا خاتمہ کیا ،سرکاری تحویل کے اداروں میں کارکنوں کو شئیرز دئے ، سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں غیر معمولی اضافہ کیا ، مگر آج55سال گذرنے کے بعد حالات کا جائزہ لیں تو محسوس ہوتا ہے ان برسوں میں ہمارے ہاں کوئی خاص فرق نہیں آ سکا ،لگتا ہے کہ 22خاندان ممکن طور پر اب 22سو خاندان بن گئے ہوں ،ریاست کو اب بھی اپنے قیام کے مقاصد سے کوسوں دور ہے،معاشی بد حالی کی وجہ سے اب جتنی خود کشیاں ہو رہی ہیں،نصف صدی پہلے اس قدر نہ تھیں ۔جتنی ناانصافی ،ناہمواری،بد دیانتی اور آمرانہ طرز حاکمیت،اخلاقی بدحالی موجودہ دور میں ہے اس کا عشر عشیر بھی ماضی میں نہیں تھا۔آج ملک کے مسائل ماضی سے کہیں زیادہ گہرے ہیں ،جن کو بڑھانے میں سب کا کردار ہے ، ،جھوٹ بولنے کا نام سیاست پڑ گیا ہے ، آج اگر کوئی خود کو اتنا ہے بڑا سیاست دان سمجھتا ہے یا بڑا سیاست دان سمجھا جا تا ہے ،توجو حکمران بلا شرکت غیرے دہائیوں تک اس ملک کے معاملات چلاتے رہے، وہ اپنی ذمہ داری کیوں پوری نہ کر سکے ؟جن کے اداوار میں فائیلیں اس لئے تیار کی جاتی رہیں کہ ضرورت کے وقت بازو مڑوڑنے کے کام آئیں وہ آج سب ایک ہی قطار میں کھڑے ہیں۔
ان نازک حالات میں کیا پی پی پی اب بھی اپنا کردار اد اکر سکتی ہے؟پی پی پی کیلئے 55سال بعد ایک اہم سوال ہے ۔ مارشل لا ء کا جبر ہو یا شخصی حکمرانوں کے ہتھکنڈے پیپلز پارٹی نے اپنی واحدانیت کو ہمیشہ برقرار ر رکھا ۔ کئی شخصیات نے اس کے نام سے ملتے جلتے گروپ بنا کر سیاست کرنے کی کوشش کی مگر سب وقت کے دھند لکے میں کھو گئے بینظیر بھٹو کی شہادت کے بعد بلاول بھٹو زرداری کی شکل میں اب پارٹی قیادت کی تھرڈ جنریشن آ چکی ہے،نیا زمانہ ہے اب نئے انداز واطوار اپنانے کی ضرورت ہے ،پارٹی کے پانچ بنیادی نعروں کی بنیاد کو چھوڑے اور چھیڑے بغیراب عوام تک رسائی کا مرحلہ طے ہونا باقی ہے۔ پیپلز پارٹی 2007ء سے2013ء تک مرکز اوراور سندھ میں اپنا پانچ سالہ دار اقتدار بھی دیکھ چکی ہے۔پی پی پی اب تک بار بار اقتدار میں آتی رہی ہے مگر ابھی اپنے اہداف سے بہت دور ہے ،آج جب بلاول بھٹو زراداری اس کے چئیر مین بن گئے ہیں ،ان کے سامنے بہت سے سولات موجود ہیں جن کا جواب ان کو تلا ش کر نا چاہئے ،کیا ہوا کہ آج پنجاب ،کے پی کے اور بلوچستان میں پارٹی کو وہ نقش موجود نہیں جو کبھی ’’زنجیر‘ کہلاتا تھا،کیا ہوا کہ کبھی پارٹی قائد کی میراث کو بے نظیر بھٹو شہید نے آگے بڑھایا تھا، جیت اس کی ضمانت تھی ،آج ’ون ایبلز‘‘ کو کیوں اہمیت مل گئی ،پارٹی کے وہ لیڈر کہاں چلے گئے جن کی بات کو کارکن سنتے تھے،میڈیا پر توجہ دیتے تھے؟
یوم تاسیس پر تجدید عہد ضرور کیا جائے ،مگر تین صوبوں میں پارٹی پوزیشن کو بحال کرانا حد ضروری ٹاسک ہے ،پاور بیس پر توجہ ضرور دیں مگر پنجاب میں ضلع ،ضلع گھوم کرکارکنوں سے مل کر غریب کے پاس جا کر بات سننا ہو گی ،ان کے زخموں پر مرہم رکھنا ہو گا ۔پارٹی 30نومبر کو پشاور میں جب جلسہ عام کر رہی ہے آخری وقت تک حکومت نے جلسہ کی اجازت دینے سے انکار کئے رکھا۔ تاہم پی پی پی نے ہر قیمت پر جلسہ کرنے کا اعلا ن کیا ،اس وقت کے پی کے صوبائی شاخ کے علاوہ پی پی پی کی مرکزی قیادت کے اکثر راہنما پشاور میں موجود ہیں کلمہ چوک پر استقبالیہ کیمپ لگا ہوا ہے ،اورپارٹی کے کارکنوں میں جوش وخروش موجود ہے ،پشاور کا جلسہ ایسے وقت پر ہو رہا ہے جب5دسمبر کو لاہور کے حلقہ این اے133 میںضمنی الیکشن ہو رہا ہے ،پشاور کے جلسہ سے پی پی پی کے کارکنوں کو مہمیز ملنے کا امکان ہے ،پی پی پی ملک کے اندر نئے الیکشن کی تیاری میں بھی مصروف ہے ، بلا شبہ پارٹی کو اپنے حقیقی اور مزاحمتی چہرے کے ساتھ میدان میں اترنا ہو گا ۔،ایسا پارٹی کی سیاست کے ڈرائنگ روم میں جابیٹھنے سے ممکن نہیں۔