• news
  • image

کورونا ابھی ختم نہیں ہوا

پچھلا سال پوری دنیا میں ایک وبائی آفت بن کر رونما ہوا۔ کورونا کی وبا نے دنیا بھر کے معاشی، سماجی، تعلیمی اور صحت کے نظام کو تباہ کر کے رکھ دیا۔ چین کے شہر ووہان سے شروع ہونے والے وائرس نے چند ہی دنوں میں پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔پاکستان بھی کورونا کی تباہ کاریوں سے بچ نہ سکااور 26 فروری کو پہلا کیس سامنے آگیا۔ تاہم اپریل کے آغاز سے اس میں تیزی ہوئی اور مئی سے جون تک صورتحال یکسر بدل گئی۔ پورا ملک کے زیر اثر آگیا۔ پاکستان میں مجموعی طور پر فروری 2020ء سے لیکر اکتوبر 2021ء تک1,268,536  مثبت کیسز ریکارڈ کیے گئے، جبکہ صوبہ پنجاب کی بات کی جائے تو صرف پنجاب میں اس سارے عرصے میں439,003  مثبت کیسز سامنے آئے جو کہ کل کیسز کا 35فی صد بنتا ہے۔ اس خطرناک صورتحال میں پنجاب میں12,892  افراد جان سے ہاتھ دھو بیٹھے ۔ وقتاً فوقتاً لاک ڈاؤن کے نتیجے میں ، 170 سے زیادہ دنوں تک تعلیمی اداروں کو مکمل بند کر دیا گیا۔ 60 دنوں سے زیادہ مارکیٹس، 30 سے زیادہ دن ریستوران کو مکمل بند کیاگیا۔ پنجاب ملٹی ڈائمنشنل پاورٹی انڈکس(ایم ڈی پی آئی)کی رپورٹ کے مطابق سے نبٹنے کے لیے جو لاک ڈاؤن لگایا گیااس کے نتیجے میں پنجاب میں جی ڈی پی کی شرح میںفیصد3کمی ہوئی۔ 50فیصد بچے سکول جانے سے محروم ہوئے ، 1 ملین خاندانوں میں غربت کی شرح فیصد 24 سے 29 فیصد ہو گئی، 37فیصد لوگ نوکریوں سے، 10فیصد تنحواہوں سے اورفیصد 49 گھر، تنحواہوں کی کمی کا شکار ہوئے۔ آبادی کے لحاظ سے ملک کاسب سے بڑا صوبہ پنجاب،جس کا کل جی ڈی پی میں 60 فیصد حصہ ہے۔ غربت کی شرح31 فیصد اورشرح خواندگی 64 فیصد ہو۔ وہا ں انسانی ،معاشی اور سماجی سطح پر اتنی ابتر صورتحال نے ترقی کے پہیے کومزیدپیچھے کی جانب دکھیل دیا۔ اس سب نقصان کا ازالہ اور مستقبل میں اس سے بچاؤ کی واحد صورت "ویکسی نیشن" ہے۔ تاکہ آبادی کی بڑی تعداد میں قوت مدافعت کے ذریعے اس وبا پر قابو پایا جا سکے اور بار بار وبا کی نئی لہر کا خطرہ جو ہر دو سے تین ماہ بعد عوام کے سروں پر منڈلانے لگتا ہے وہ ٹل سکے۔ اسی امید کی کرن کے ذریعے ہی 2021 ء میں کیسز میں کمی، لاک ڈاؤن کا خاتمہ اور زندگی ایک بار پھر اپنے معمول پر چلتی نظر آنے لگی ہے مگر اسکے باوجو د پنجاب کی آبادی کا بڑا حصہ ویکسی نیشن کے بغیر ہے۔جو کہ ایک بڑے خطرے کی علامت ہے۔ان حالات میں جہاں حکومت کورونا کی روک تھام کیلئے مختلف اقدامات کر رہی ہے ،وہا ں پر پنجاب حکومت کی جانب سے "ریچ ایوری ڈور " (Door Every Reach ) (ریڈمہم) کا آغاز ایک بہترین کاوش ہے۔ پنجاب پرائمری اینڈ سیکنڈری ہیلتھ کیئر کی اس مہم کا بنیادی مقصد ویکسی نیشن کے عمل کو مزید تیز کرنا اور عوام کو انکے گھروں تک ویکسین کی فراہمی یقینی بنانا تھاتاکہ 70 فیصدآبادی کو ویکسین لگانے کا ہدف جلد ازجلد پورا کیا جا سکے۔
ِNational  Incident  Management System  (NIMS) کے اعدادوشمار کے مطابق 23 اکتوبر تک پنجاب میں ویکسی نیشن کی شرح 48 فیصدریکارڈ کی گئی تھی مگر ریڈ مہم کے نتیجے میں یہ شرح 59 فیصد پر پہنچ گئی جو کہ نہایت قابل تحسین ہے۔این سی او سی )کی رپورٹ کے مطابق پنجاب کاصرف ایک ضلع منڈی بہاؤالدین ،سے محفوظ حد میں موجود علاقہ قرار پایا تاہم اکتوبر کے آخر تک نارووال ، جہلم، راولپنڈی، سرگودھا، سیالکوٹ، میانوالی، چکوال، حافظ آباد اور رحیم یار خان کو بھی محفوظ سطح تک ویکسین والے ضلعوں میں شامل کر لیا گیا۔ لاہور کا نمبر ابھی اس میں بہت پیچھے ہے مگر امید کی جاتی ہے کہ اگر اسی طریقے سے کام جاری رہا تواس مہم کے دوسرے فیز میں جو کے دسمبر کے مہینے میں شروع کیا جائے گا،لاہور اور اس جیسے دوسرے بڑے شہر بھی جلدمحفوظ علاقوں کی فہرست میں شامل ہو جائیں گے۔
بری خبر یہ ہے کہ ایک نئے اور ممکنہ طور پر تیزی سے منتقل ہونے والے وائرس کے مختلف قسم کی جنوبی افریقی سائنسدانوں نے شناخت کی ہے جس نے پوری دنیا میں ایک مرتبہ پھر سفری پابندیوں کے ایک نئے دور کو جنم دیا ہے اور اسکے بارے میں ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن نے تشویش کا اظہار کیا ہے اور کہا کہ اس نئی قسم کے بارے میں مطالعہ جاری ہے اور کوشش کی جا رہی ہے اس کا حل بھی جلد از جلد نکالا جا سکے۔وبائی امراض کے ماہر ڈاکٹر فاوچی کا کہنا ہے کہ جلد یا بدیر یہ امیکرون وائرس بڑے پیمانے پر پھیل سکتا ہے کیونکہ اس میں بہت زیادہ منتقلی کے قابل ہونے کی مالیکیولر خصوصیات ہیں۔جو لوگ یہ سوچ رہے ہیں کہ کورونا ختم ہو گیا ہے وہ یقیناً غلط فہمی کا شکار ہیں. حکومت پاکستان کو امیکرون وائرس سے نمٹنے کیلئے قبل از وقت اقدامات کرنا ہوں گے اور پاکستانی عوام کو اس ذمہ داری کا خیال کرنا چاہیے کہ وہ ویکسی نیشن کروا کر اپنا اور اپنے گھر والوں  کابھلا کریں کیونکہ ابھی ختم نہیں ہوا۔

epaper

ای پیپر-دی نیشن