صدارتی اقبالؒ ایوارڈ اور صدرِ پاکستان (2)
بات ہو رہی تھی ایوان صدر میں تقسیم صدارتی اقبالؒ ایوارڈ کی تقریب کی۔ ایوارڈ یافتگان اور تمام مہمانوں کی باعزت طریقے سے پذیرائی کی گئی۔ گزشتہ کچھ تقریبات کی طرح جن میں اہم شخصیات نے شرکت کرنا تھی سینئر ادیبوں کو تلاشی اور انتظار کے طویل مراحل سے نہیں گزارا گیا۔ البتہ ایوان صدر کے اندر بھی سکیورٹی حصار مسلسل صدر پاکستان کو گھیرے رہا حالانکہ معصوم اور بے ضرر شاعروں ادیبوں سے صدر صاحب کو کیا خطرہ ہوسکتا تھا۔ کچھ احباب نے بڑی مشکل سے صدر صاحب کو کتابیں پیش کرتے ہوئے تصویریں بنوائیں لیکن سکیورٹی اہلکاروں نے وہ تصاویر ڈیلیٹ کروا دیں۔ البتہ چائے کے موقع پر صدر صاحب نے ایک جگہ کڑے ہو کر حاضرین کے ساتھ باری باری بڑے اہتمام کے ساتھ تصویریں بنوائیں۔صدر ڈاکٹر عارف علوی صاحب مطالعہ شخصیت ہیں۔ انہوں نے شاعر مشرق علامہ محمد اقبالؒ کی فکر و فلسفہ کے حوالے سے عمدہ اور متاثرکن فی البدہیہ گفتگو کی جسے حاضرین نے بہت سراہا۔ صدر صاحب کو چاہئے کہ نئی نسل میں اقبالؒ کی فکر کے فروغ کے لئے تعلیمی اداروں میں کلام اقبالؒ کی تعلیم و تشریح کے خصوصی انتظامات کیے جائیں تاکہ آج جو نسل موبائل اورسوشل میڈیا میں ہر وقت غوطہ زن رہتی ہے وہ اقبالؒ کے شاہین کی طرح بلند پروازی اور خودی کا سبق سیکھے۔ تعلیمی اداروں اور تمام سرکاری ادبی و ثقافتی اداروں کو علامہ اقبالؒ کے پیغام کے فروغ کیلئے خصوصی اقدامات کرنے کے احکامات یا ہدایات جاری کی جائیں اور اقبالؒ اکادمی پاکستان جیسے اداروں کو وافر فنڈز فراہم کیے جائیں تاکہ یہ ادارے زیادہ موثر اور بہتر انداز سے اپنے کام کو آگے بڑھا سکیں۔ ادارے کی بات آئی ہے تو ان صاحب اختیار شخصیات سے یہ بھی عرض ہے کہ اقبالؒ اکادمی جیسے اداروں کے ملازمین جو مقصدی کام کر رہے ہیں اور جنہوں نے عمر کا بڑا حصہ ان اداروں کیلئے وقف کیے رکھا ریٹائرمنٹ کے بعد اچانک ان کی پنشن روک دی گئی ہے۔ ریٹائرڈ ملازمین کا واحد سہارا وہ تھوڑی سی پنشن ہوتی ہے جس سے وہ باعزت طریقے سے اپنی معمولی گزر بسر کر سکتے ہیں۔ لہٰذا ان ملازمین کی پنشن بحال کی جائے تاکہ ایسے تعمیری مقاصد کے لئے کام کرنے والے اداروں میں کام ملازمین مایوسی اور غیر یقینی کی صورتحال سے نکل سکیں اور اقبالؒ کے فلسفہ کیمطابق خودداری سے زندگی گزار سکیں۔ اقبالؒ اکادمی کے صدر اور وفاقی وزیر تعلیم شفقت محمود جنہوں نے طلباء و طالبات کی بہت دعائیں لی ہیں وہ اپنے اس ذیلی ادارے کے ملازمین کا جائز حق دلوا کر ان کی بھی دعائیں حاصل کریں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ علامہ اقبالؒ ایک آفاقی شاعر ہیں۔ اُمت مسلمہ کی بیداری اور برصغیر کے مسلمانوں کیلئے الگ مملکت کا تصور پیش کیا۔ بے شمار عالمی شخصیات، مفکر، فلسفی، شعرائ، ادیب علامہ کو خراج عقیدت پیش کر چکے ہیں۔ دنیا میں کئی اداروں میں ان پر تحقیق و تصانیف کا عمل جاری ہے۔ پاکستان سمیت کئی ممالک میں ان کے نام پر ادارے قائم ہیں اور علامہ اقبالؒ کے فن، شخصیت اور فکر پر کام ہو رہا ہے۔ ہزاروں کتابیں اور تحقیقی مقالے لکھے جا چکے ہیں لیکن ہمارے ہاں کے سیاسی بونے ایسی عظیم شخصیات کو متنازعہ بنانے کی کوشش کرتے ہیں جن کی حوصلہ شکنی کرنا ضروری ہے۔ گزشتہ دنوں سینٹ میں یوم اقبالؒ پر تعطیل کی قرارداد پیش کی گئی تو پیپلز پارٹی جو قومی پارٹی سے سمٹ کر دیہی سندھ تک محدود ہو کر رہ گئی ہے کے سینٹر مولابخش چانڈیو نے یہ کہہ کر اپنی کم علمی و تنگ نظری کا اظہار کیا کہ سینٹ ایک وفاقی ادارہ ہے اس میں پنجاب کے ایک شاعر کے حق میں قرارداد پیش نہیں ہونی چاہئے۔ حالانکہ علامہ اقبالؒ نے کبھی پنجابی میں شاعری نہیں کی۔ مولاچانڈیو صاحب کو فہم و فراست بخشے تو وہ کبھی اقبالؒ کی شاعری کا مطالعہ کر لیں اور دنیا بھر میں علامہ اقبالؒ پر ہونے والے کام کا جائزہ لے لیں۔ اگر ان کو علامہ کی آفاقی شاعری کی کچھ سمجھ آجائے تو وہ اس ہرزہ سرائی پر قوم سے معافی مانگیں۔ حکومت کوئی ایسا قانون پاس کرے یا صدر پاکستان کوئی ایسا آرڈیننس جاری کریں کہ ہمارے قومی مشاہیر کو متنازعہ بنانے یا انکے خلاف بیان دینے والوں کیخلاف کارروائی ہو اور کسی کو ایسی جرأت نہ ہو۔بہت سے لوگ خود کو نمایاں کرنے یا اپنا بونا قد بلند کرنے کی ناکام کوشش کرتے ہوئے کسی بڑی شخصیت کے حوالے سے اسکے حق یا مخالفت میں بڑا دعویٰ کرنے لگتے ہیں۔ علامہ اقبالؒ سے محبت کا دعویٰ کرنے والوں میں بھی کئی ایسے لوگ مل جائینگے جنہوں نے کبھی کلام اقبالؒ پڑھا بھی نہ ہوگا۔ ایسی ہی ایک خاتون سے پوچھا گیا کہ آپ کو علامہ اقبالؒ کی کون سی نظم پسند ہے؟کہنے لگیں ویسے تو بہت سی نظمیں بہت اچھی ہیں اور اکثر تومجھے زبانی بھی یاد ہیں لیکن ان کی نظم شکوہ تو مجھے بہت ہی پسند ہے۔ ان سے کہا گیا کہ ’’شکوہ‘‘ کا کوئی پسندیدہ شعر سنا دیں۔ بہت دیر تک ذہن پر زور دے کر بولیں:
شکوہ نہیں کسی سے، کسی سے گلہ نہیں
نصیب میں نہیں تھا جو ہم کو ملا نہیں
اللہ ، کلام اقبالؒ کا مطالعہ بھی انکے نصیب میں کر دیتا تو ہمیں بھی ان سے کوئی گلہ یا شکوہ نہ رہتا!(ختم)