• news
  • image

سوجھ بوجھ رکھنے والوں کی زباں بندی ضروری ہے

گزشتہ روز میرے ’’آزادی صحافت ‘‘ کے تحریکی ساتھی نامور صحافی مظہر عباس ( سینئر صحافی نہیں لکھا کہ اب صحافت میں سینئر صحافی ایک معیوب لفظ ہوگیا ہے نتھوخیرے ، فیس بک پر اپنی تصاویر چسپاں کرکے سینئر صحافیوں کی فہرست میں از خود شامل ہوجاتا ہے ) بات ہورہی تھی نامور صحافی ، بہت ہی بہترین تجزیہ کار مظہر عباس کی کہ انہوںنے اپنے کالم میں موجودہ سیاست اور سیاست دانوںکا ذکرکے ساتھ حسن ناصر شہید، نظیر عباسی جیسے بے لوث افرادکا ذکر کرکے حسن ناصر شہید جیسے قربانی دینے والے کا ذکر کرکے جدوجہد شہداء کی روح کو تکلیف پہنچائی ہے ۔ میں وثوق سے کہہ سکتا ہوںکہ آج کے سیاست دان چاہے حکومتی ہوں یا حزب اختلافی وہ حسن ناصر ، نظیر عباسی ، رشید حسن خان، علی یاور جیسے لوگوںکے نام سے بھی آشناء نہیں ہونگے،مجھے یہ لکھنے میں بھی کوئی پریشانی نہیں کہ آج کے سیاست دانوں کو تحریک پاکستان کے زعما بشمول بانی پاکستان وہ دیگر کی قیام پاکستان کی کوششوںسے بھی پچاس فیصد بھی آشناء نہیںہونگے ، بانی پاکستان کا نام تو اپنے مقاصد کیلئے لے لیا جاتا ہے ، زعما تحریک پاکستان کا ذکر اور انکی تحریک سے آگاہی کیلئے محسن پاکستان ڈاکٹر مجید نظامی کا ادارہ ہی نظریہ پاکستان سے آگاہی اسکولوں سکولوں تک پہنچا کر ، زعماء تحریک پاکستان کے دنوں کو منا کر ایک لامتناہی جدوجہد کررہا ہے تاکہ آنے والی نسل تک کم از کم تحریک پاکستان سے آگہی ہو ، گزشتہ دنوں بہت دکھ ہوا جب ہمارے سرگرم وزیر اطلاعات جنکے ذمے ہے کہ وہ سابقہ کو برا بھلا کہہ کر موجودہ کو قائم رکھنے کی کوششیں جاری رکھنے ہیں ، انہوںنے ایک محفل میں 1978 ء کے آزادی صحافت کی تحریک کے ہیرو ، مارشل لاء دور میں آزادی صحافت کے علم کو بلند رکھنے کیلئے ’’کوڑے ‘‘کھانے والے نامور صحافی ، خاورنعیم ہاشمی کو پہنچاننے سے انکار کردیا۔ یہ تو صرف 1978ء کی بات ہے قائد اعظم کی تحریک 1947ء کی تھی اسے اگر کوئی سیاست دان یاد رکھے تو اسکی مہربانی ہے ۔ خیر حسن ناصر شہید و دیگر کی تحریک تو کسی اقتدار کیلئے نہیں ۔  ملک میں ایک بہترین ، نظام کے قیام کیلئے تھی ، انکی خواہش مسند حکومت حاصل کرنا نہیں ، مگر انکی تحریکوںسے ستر سالوںسے میوزیکل چیئر کھیلنے والوں کی صحت پر کوئی اثر نہیں پڑا ، کیونکہ اب سیاست میں سیاست دان روبوٹ کا کردار کرتے ہیں ۔گزشتہ عرصوںمین ن لیگ ، اور پی پی پی کی خراب سیاست ہی تحریک انصاف کو میدان سیاست میں لائی مگر چار سال مسند حکومت پر قائم رہنے کے باوجود ملک کی تقدیر کا کچھ نہ ہوسکا ،ملک کا درمیانہ طبقہ بھی اب نچلے طبقہ میں شمار ہونے لگا ہے ، مہنگائی ، بے روزگاری نے انہیں کہیں کا نہ چھوڑا ۔ 22 کروڑ میں جو کچھ سوجھ بوجھ رکھتے ہیں وہ ملکی حالات دیکھ کر بلڈ پریشر کا شکار ہیں ۔ سوجھ بوجھ رکھنے والوں ہمارے ملک میں قلیل تعداد ہے چونکہ بقیہ اکثیر یت کو ملکی تاریخ کے مہنگے ترین بازار میں خریداری کی کوششوںسے فرصت نہیں، ان سوجھ بوجھ رکھنے والے قلیل لوگوں کو جسمانی بیماری اسلئے بھی اضافہ کررہی ہے کہ اب جدوجہد کا راستہ ہمارے سیاست دانوںکیلئے بذریعہ عوام یا سڑک نہیں بلکہ ، سچی ، جھوٹی ویڈیوز ہیں ، اگر ویڈیو سچ ہو تو وہ شخص فوری نیب کا چیئرمین ہونے کا روپ دھار لیتا ہے ، حزب اقتدار والوںکی طرف دیکھ کر اپنی آنکھ ہی بند رکھتا ہے ۔ جب سابق وزیر اعظم کا مقدمہ کرپشن کا داخل عدالت ہوا تو مقدمہ سے پہلے ہی رو ز بغیر کسی سوا ل جواب کے انہوںنے سابق وزیر اعظم کو عدالت میں دیکھ کر انہیں ’’اٹلی کے مافیہ ‘‘ کا لقب نواز دیا تھا ۔ سوجھ بوجھ رکھنے والے عوام اس بات پر بھی بلڈ پریشر کا شکار ہوگئے ہیںکہ تاحال ساڑھے تین سالہ حکومت میں ریکارڈڈ بیانات جو سابق وزیر اعظم میاںنواز شریف پر زیادہ ، اور سابق صد ر آصف علی ذرداری پر کم ( فرق صاف ظاہر ہے کہ موجودہ حکومت کی قریب ترین حریف مسلم لیگ ن ہے ضمنی انتخابات اسکا ثبوت ہیں ) اسلئے کرپشن کر رو گردانی ہر محفل میںاولیت رکھتی ہے ، تقریب چاہے کوئی ہو ) مگر موجودہ حکومت میں ہونے والی لازوال کرپشن پر کوئی گرفتاری نہیں ، بلکہ ’’تحقیقی مراحل ‘‘ جو لامتناہی مرحلہ ہوتا ہے ، اندرونی کرپشن جیسے سننے میں آرہی ہے دوائیوںکا مسئلہ ہو یا دیگر مگروہ کرپشن جو بین الاقوامی طور پر مشہور ہوجائے جیسے کرونا ء میں ملنے والی 40ارب روپے کی خطیر رقم کی دن دھاڑے کرپشن جسکی نشاندہی خود حکومتی آڈیٹر جنرل نے کی ہے اور اس وجہ سے ہمارے دیالو دیوتا، آئی ایم ایف نے ہماری قسط ہمیں ابھی تک نہیںدی ہے اور اسکا پہلے حساب مانگا ہے ۔ سوجھ بوجھ والے عوام اسلئے بھی پریشانی کا شکار ہیں کہ ایک ارب ڈالر کے حصول کیلئے بقول ہماری اعلیٰ مذاکراتی ٹیم ( انہیںمذکراتی ٹیم کہنا زیادتی ہے ، یہ تو صرف فیصلہ سننے جاتے ہیں ) انکی حالیہ آئی ایم ایف کے ساتھ ملاقات میںانہیں فیصلہ سنایا گیا ہے کہ پہلے جو کرونا کے علاج کا40  ارب روپیہ ہڑپ ہوا اسکا حساب دو ، پھر ایک ارب ڈالر لو ، نیز اس ایک ارب ڈالر کے بدلے اس سال کے آخر میں عوام پر ساڑھے تین سو ارب ڈالر کے نئے ٹیکس لگانے ہونگے ۔ ( اب تو قبروں پر ہی ٹیکس لگانا باقی رہ گیا ہے ) موجودہ صورتحال میں انتخابات کے بعد اگر کوئی نئی ددسری حکومت آئی تو اسے بھی موجودہ حکومت کے بیانات پر ہی گزارنا پڑے گا کہ ’’گزشتہ حکومت نے قرض لیکر ملک کی معیشت کو تباہ کردیا ہے ‘‘نئے آنے والوںکو نئے بیانئے کی ضرورت نہیں پڑے گی ۔ مالی معاملات میں ہماری موجودہ صورتحال کچھ چینلز اور سیاست دان دوست ملک سے ملنے والے مجوزہ 3 ارب ڈالر کے بینک ڈپازٹ کے متعلق کھلے الفاظ میں تو نہیں نرم الفاظ میں باتیں کرکتے ہیں۔ موجودہ بینک ڈپازٹ بھی ہمارے تجارتی معاہدوں کا مضبوط بنانے اور ڈالر کی قیمت کو اسکا مقام دکھانے کیلئے ہے ۔ہم اپنی بدنامی کے خود ہی ذمہ دار ہیں، کیا بیرون ملک حکومتوںکو ہماری کرپشن کے ’’بہترین اندازوں‘‘سے واقفیت نہیں؟؟اربوں ، کھربوںمیں کھیلنے والے غریب ملک کے حکومتی اراکین، سیاست دان ، نوکر شاہی ہمارے ملک ہوشربا کرپشن کا بہترین اشتہار ہیں۔ عوام کو نہ ہی کسی ویڈیو سے دلچسپی ہے ، نہ ہی بیرونی قرضوں سے وہ تومہنگائی کے مارے ہوئے ہیں ۔۔ یہ سوجھ بوجھ رکھنے والے والے چند لوگ انہیں خوامخواہ کے شکوک میں مبتلا کرتے ہیں ۔

epaper

ای پیپر-دی نیشن