حولیاں حسن ابدال ایکسپریس وے کی تعمیر میں4ارب کی بے ضابطگیوںکا انکشاف
اسلام آباد (نامہ نگار) پبلک اکائونٹس کمیٹی نے پاکستان کے اندر مواصلاتی نظام میں خرابیوں اور عوام کو موٹرویز پر پیش آنے والی مشکلات کی وجہ این ایچ اے کو قرار دیدیا ہے۔ آڈٹ حکام نے حویلیاں حسن ابدال ایکسپریس وے کی تعمیر میں چار ارب روپے کی بے ضابطگیوں کے بارے میںرپورٹ پیش کی جبکہ نیشنل ہائی وے اتھارٹی نے اپنے کئے کا ذمہ ایف ڈبلیو او کو ٹھہرانا وطیرہ بنا لیا ہے۔ ممبران کمیٹی نے شدید برہمی کا اظہار کیا ہے۔ پبلک اکائونٹس کمیٹی کا اجلاس رانا تنویر حسین کی زیر صدارت ہوا۔ اجلاس کے آغاز پر ہی وزارت مواصلات کی سال 2019-20 کی آڈٹ رپورٹ کا جائزہ لیا گیا۔ رکن قومی اسمبلی نور عالم نے کہا کہ جب سے موٹروے M1 اور M2 ایف ڈبلیو او کے پاس گئی ہیں ان پر بھی گڑھے بن گئے ہیں جس کی بڑی وجہ ناقص میٹریل کا استعمال اور کنسلٹنسی پر سوالیہ نشان ہے۔ جس پر چئیرمین کمیٹی رانا تنویر حسین نے کہا کہ این ایچ اے سے پوچھا جائے تو کہتے ہیں کہ ایف ڈبلیو او سے پوچھیں۔ اس منطق کی ہمیں سمجھ نہیں آرہی۔ تو اس پر رکن قومی اسمبلی نور عالم نے کہا کہ پہلے گاڑی میں گلاس رکھ کر بھی موٹروے پر سفر کرتے تھے تو گرتا نہیں تھا۔ اب تو ایسا لگتا ہے جیسے گاڑی کو مرگی کا دورہ پڑ گیا ہے۔ اس پر سیکرٹری مواصلات نے کمیٹی کو بتایاکہ نیسپاک اور ایم اینڈ آئی رپورٹ نے ایکسپریس وے کو کلئیر کردیا ہے۔ آڈٹ رپورٹ کے مطابق ایکسپریس وے کی تعمیر کے بعد 56 ٹیسٹ کیے گئے صرف 29 پاس ہوئے ہیں۔ پی اے سی نے معاملہ دوبارہ محکمانہ اکائونٹس کمیٹی میں لے جانے کی ہدایت کر دی ہے۔ رانا تنویر حسین نے کہا گاڑیاں گزرنے کیلئے بوتھ زیادہ کرنے کی ضرورت ہے۔ سینیٹر طلحہ محمود نے کہا کہ یہ صرف کالا شاہ کاکو کا مسئلہ نہیں پورے پاکستان کا ہے۔ رانا تنویر حسین نے کہا جب جنگ لگی ہو آپ پل بناتے ہیں؟ ڈی جی نہیں ہے یہ کیا بات ہوئی۔ چیئرمین پی اے سی نے ایف ڈبلیو او حکام کو پندرہ دن میں مسئلہ حل کرنے کی ہدایت کر دی ہے۔