ماں
محترمہ والدہ صاحبہ کو اس جہانِ فانی سے رخصت ہوئے تین سال بیت چکے ہیں۔ بخدا اُن کی دعائیں آج بھی ہر لمحہ ہر پل میرے شاملِ حال رہتی ہیں۔ بلاشبہ اللہ تعالیٰ اور خاتم النبین صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد ماں سے زیادہ اس کائنات میں کوئی بھی شفیق ، غم خوار نہیں۔ ماں کا سایہ، سایہ طوبیٰ سے بھی اعلیٰ ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ماں کے وجود میں اس قدر محبت و شفقت رکھی کہ اپنی رحمت کا اظہار کرتے وقت ماں کی محبت کو مثال بنایا۔ فرمایا۔ جس قدر ایک ماں بچے سے محبت پیار کرتی ہے میں اُس سے ستر گنا زیادہ اپنے بندے سے پیار کرتا ہوں۔ اکثر سوچتا ہوں کہ جب اللہ کریم ماں سے ستر گنا بڑھ کر شفیق ہے، ہمارے آقا خاتم النبین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہمارے لیے سراپا رحمت بن کر تشریف لائے جو خالق کائنات کے محبوب بھی ہیں۔ اس حد تک کہ اللہ کریم خود بھی اور اُس کے فرشتے بھی خاتم النبینؐ پر درود و سلام بھیجتے ہیں اور ہمیں بھی یہ حکم دیا گیا ہے کہ آپؐ پر درود و سلام بھیجا کرو اور خاتم النبینؐ نے جنت کو ہی ماں کے قدموں کے نیچے قرار دیا تو پھر بھلا ایک مسلمان کو پریشانی اور غم کیوں لاحق ہو ۔ اللہ تعالیٰ میری محترمہ والدہ صاحبہ سمیت تمام مائوں کو جنت الفردوس میں اعلیٰ و ارفع مقام عطائے فرمائے آمین اور جن کی مائیں حیا ت ہیں اللہ کریم اُن کو سلامت رکھے اور بچوں کو اپنے والدین کی خدمت کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین۔ محترمہ والدہ صاحبہ سید محمد اعظم شاہ (مدفون جمال پور سیداں ۔ گجرات) کی صاحبزادی اور حضرت حافظ سید محمد عبداللہ شاہ صاحب (مدفون چک نمبر 15شمالی، ضلع منڈی بہاء الدین) کی نواسی ہیں۔ حافظ سید محمد عبداللہ شاہ صاحب ولی کامل تھے۔ حضرت قاضی سلطان محمودؒ (مدفون اعوان شریف، ضلع گجرات) کے خلیفہ مجاز تھے اور علامہ محمد اقبالؒ کے والد گرامی شیخ نور محمد کے پیر بھائی بھی تھے۔ یہ مکمل تفصیل جناب سید نو ر محمد قادری کے مضمون ’’سلسلہ قادریہ میں علامہ اقبالؒ کی بیعت ‘‘ مطبوعہ ضیائے حرم، لاہور، اپریل 1975ء میں موجود ہے۔ یہ بھی ایک حسنِ اتفاق ہے کہ محترمہ والدہ صاحبہ کی تاریخ رحلت تین دسمبر 2018 ء اور اُن کے نانا جان حافظ سید محمد عبداللہ شاہ صاحب کی تاریخ وفات پانچ دسمبر 1941ء ہے۔ حضرت حافظ صاحب کی اولاد میں تین بیٹے اور تین بیٹیاں ہیں۔ ان میں سب سے بڑی بیٹی میری نانی اماں سیدہ عزت جان تھیں جو 1984ء میں وفات پاگئیں اور اپنے والد گرامی حافظ صاحب کے پہلو میں چک نمبر 15شمالی ضلع منڈی بہاء الدین میں دفن ہیں۔ محترمہ والدہ صاحبہ نانی اماں کی اکلوتی اولاد ہیں۔ محترمہ والدہ صاحبہ کے تین ماموں سید نور محمد قادری ماہر اقبالیات اور نامو ر مصنف، سید گلزار احمد قادری اور سید خلیل احمد (بانی و ہیڈ ماسٹر گورنمنٹ پبلک ہا ئی سکول کالو پنڈی ضلع منڈی بہاء الدین) ہیں۔ محترمہ نانی اماں بھی اللہ کی ولیہ تھیں۔ والدہ صاحبہ کی پرورش بھی ننھیال چک نمبر 15شمالی میں ہوئی۔ تینوں ماموں اپنی بھانجی والدہ صاحبہ کو دل و جان سے چاہتے تھے۔ محترمہ والدہ صاحبہ نے بھی آخر دم تک اپنے تینوں ماموئوں کے عزت و احترام میں معمولی بھر میں فرق نہیں آنے دیا۔ یہی وجہ ہے کہ اُن کی اولادیں بھی آج ہمارے ساتھ محبت و شفقت کا سلوک روا رکھے ہوئے ہیں۔ والدہ صاحبہ نے قرآن پاک کی تعلیم گھر پر اپنے ماموں جناب سید نور محمد قادری سے حاصل کی۔ اُردو زبان کے علاوہ والدہ صاحبہ کو پنجابی زبان پر بھی عبور حاصل تھا۔ ننھیال میں بڑے نازو نعم سے والدہ صاحبہ کی پرورش ہوئی۔ محترمہ والدہ صاحبہ کے سسرال یعنی ہمارے ددھیال پیچو کے ضلع سیالکوٹ میں ہیں۔ ہمارے جدامجد پیر جان محمد سرکار المعروف پیر جانے شاہؒ اللہ کے ولی تھے۔ درویش منش اور سنی العقیدہ مسلمان تھے۔ یہی وجہ ہے کہ ہمارے دادا جان قبلہ پیر سید اللہ حیات اور اُن کے بھائی پیر سید محمد زاھدؒ بھی سنی العقیدہ اور تا زندگی اپنے جد امجد پیر جان محمد سرکارؒ کی تعلیمات پر کاربند رہے۔ بدقسمتی سے دیگر مزارات کی طرح ہمارے جد امجد پیر جان محمد سرکارؒ کے مزار پربھی آج خرافات دیکھنے کو ملتی ہیں جو کہ اسلامی تعلیمات کے برعکس ہیں۔ والد گرامی قبلہ پیر سید کرامت علیؒ بھی ایک درویش منش بزرگ تھے۔ جو کہ 2000ء گیارہ مئی اس جہانِ فانی سے رحلت فرما گئے اور ’’پیچو کے‘‘ کے قبرستان میں مدفون ہیں۔
محترمہ والدہ صاحبہ صوم و صلوٰۃ کی پابند اور درود شریف کا ورد عمر بھر اُن کی حیات مبارکہ کا معمول رہا۔ زندگی میں مصائب و مشکلات کا سامنا بھی کرنا پڑا مگر رضائے الٰہی کے آگے سرِ تسلیم خم رکھا۔ اور مصائب کو بھی خندہ پیشانی سے برداشت کیا۔ گائوں میں سینکڑوں بچوں بچیوں کو قرآن پاک کی تعلیم سے فی سبیل اللہ نوازا۔ حضرت حافظ سید محمد عبداللہ ؒ شاہ صاحب کی بڑی نواسی ہونے کی بنا پر بھی خاندان اور گائوں میں محترمہ والدہ صاحبہ کو انتہائی عزت و احترام حاصل تھا۔ والدہ صاحبہ کی خواہش تھی کہ میری اولاد تعلیم میں سبقت حاصل کرے لہٰذا اللہ کریم نے اُن کی اِس خواہش کو بھی پورا کیا۔